اسلامیات

ہندو مذہب کی اخلاقیات

غالباًسن ۲۰۰۰ء میں یعنی اب سے ۲۲/سال پہلے ایک ہندوفلم ساز نے واٹر(پانی) کے نام سے ایک فلم بنائی تھی،جس میں ہندوسماج  کی حقیقی اخلاقی تصویر پیش کی تھی،کشمیر فائلس کی طرح جھوٹ کا پلندہ نہیں تھی،اس پر ہندوتوا تحریک کی جانب سےان کے مزاج کے مطابق سخت اشتعال انگیز احتجاج ہوا تھا،اس پس منظر میںراقم الحروف نےایک مختصر تحریر لکھی تھی،موجودہ حالات میں جب کہ اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کے لیےفلمیں بنائی جارہی ہیں یہی مضمون قندمکررکے طور پرقارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ ’’رحمانی‘‘

پانی کا کام آگ بجھانا اور ٹھنڈک بخشنا ہے ؛ لیکن اس وقت ’’ پانی ‘‘ نے پورے ملک میں آگ لگارکھی ہے ، قارئین سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ کون سا آتش خیز اور حرارت ریز پانی ہے ؟ میری مراد ’’ Water ‘‘ نامی فلم سے ہے ! جسے دیپامہتا نامی ہدایت کار بنا رہی ہیں ، اس سے پہلے ان ہی خاتون نے ’’ آگ ‘‘ لگائی تھی اور ’’ فائر‘‘ نامی فلم تیار کی تھی ، شیو سینا کے کار کن اس فلم پر اتنے برہم ہوئے کہ حقیقی معنوں میں کرتے پاجامے سے باہر آگئے ، اور اب وہ ایسا پانی پیش کر رہی ہیں ، جو آگ سے بھی بڑھ کر گرم ہے ، ’’ فائر ‘‘ نامی فلم ہم جنسی کے موضوع پر تھی ، ظاہر ہے کہ یہ بے حیائی اور بے شرمی پر مبنی فلم ہے ، ہندوستان جیسے ملک میں جو بڑی حد تک ایسی اخلاقی بیماریوں سے پاک اور محفوظ ہے ، وہاں ہم جنسی کے موضوع پر کسی فلم کا آنا ایک بے معنی بات ہے اور اس کا نتیجہ برائی کی تشہیر و ترغیب کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا ۔
دیپا مہتا کی نئی فلم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہندو مذہبی طبقہ میں پھیلی ہوئی اخلاقی انارکی اور ہندو معاشرہ میں خواتین بالخصوص بیوہ خواتین کے ساتھ ناروا سلوک اور ان کی حالت زار کا ذکر ہے ، اس سلسلہ میں دو باتیں قابل غور ہیں : اول یہ کہ جو باتیں اس کے ذریعہ پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہیں ، کیا وہ حقائق پر مبنی ہیں ؟ دوسرے اگر حقائق پر مبنی ہیں تو کیا ہر حقیقت کا اظہار مناسب ہوتا ہے ، اس سے قطعِ نظر کہ اس سچائی کا اظہار سماج کے لئے مفید ہے یا مضر اور فائدہ مند ہے یا نقصان دہ ؟؟
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندو مذہبی مصادر میں اخلاقی نقطۂ نظر سے قابل اعتراض باتیں بکثرت پائی جاتی ہیں ، رام جی کی شخصیت ہندوؤں کے یہاں نہایت ہی مقدس شخصیت سمجھی جاتی ہے اور اس وقت تو ’’رام ‘‘ کا نام ہندو فکر و تہذیب کا عنوان بن چکا ہے ؛ لیکن رامائن رام کی زبان میں سیتا کے حسن کی جو تصویر کھینچتا ہے وہ کھلی ہوئی بے حیائی پر مبنی ہے ، یہاں تک کہ وہ اپنے بھائی لکشمن کے سامنے سیتا کے ساتھ اپنے جنسی تعلقات کو بھی تفصیل سے بیان کرتے ہیں ، لنگ اور بونی مردانہ اور زنانہ اعضاء مخصوصہ کو کہا جاتا ہے ، ہندو مذہب میں لنگ اور بونی کی بھی پرستش کی جاتی ہے ، یہاں تک کہ ان فحش الفاظ سے بچوں کے نام بھی رکھے جاتے ہیں ، جیسے شیو لنگم ، رام لنگم وغیرہ ، کرناٹک میں بعض مندر ایسے ہیں جہاں مرد و عورت کو بے لباس ہو کر پوجا کرنی پڑتی ہے ، حکومت اسے روکنے کی کوشش کر رہی ہے ؛ لیکن اکثر حکومت کی ممانعت پر مذہبی جذبات غلبہ حاصل کر لیتے ہیں ۔
ہندو مذہبی حلقہ میں مرد و عورت کے جنسی تعلق کے طریقے اور کیفیات تحقیق وتالیف کا خاص موضوع رہے ہیں ، اور اس موضوع پر ’’ کام سوتر‘‘ کے نام سے کئی مذہبی کتابیں اوباش قسم کے لوگوں کے لئے لذتِ کام و دہن کا سامان ہیں ، بے حیائی اور بداخلاقی کو مذہبی رنگ دینے کے لئے برہمنوں نے ’’ دیو داسی نظام ‘‘ شروع کیا ، اس رسم کے تحت عام ہندو اور خاص کر نچلی ذات کے لوگ اپنی لڑکیوں کو مندروں پر مذہبی جذبہ سے وقف کیا کرتے تھے اور لوگوں کو دھوکہ دے کر مذہبی شخصیتیں ان سے اپنی شبستانِ ہوس سجایا کرتے تھے ، مسلمانوں کے دورِ حکومت میں اس نامعقول رسم کو ختم کرنے کی بہت کچھ کوششیں کی گئیں ؛ لیکن بد قسمتی سے اب تک مہاراشٹر ، کرناٹک اور ہندوستان کے بعض علاقوں میں یہ رسم باقی ہے ، حقیقت یہ ہے کہ ’’دیو داسی نظام ‘‘ کو اگر مذہبی قحبہ گری کا عنوان دیا جائے تو غلط نہ ہوگا !
چنانچہ اس مذہبی فکر نے ہندو تمدن پر بھی گہرا اثر ڈالا ہے ، ’’ کھجورا ہو‘‘ کا مندر اور’’اجنتا‘‘ کے غار اس کی کھلی ہوئی مثالیں ہیں ، جیسا کہ کہنے والے کہتے اور نقل کرنے والے نقل کرتے ہیں کہ کوئی شریف اور حیا دار انسان اپنے بزرگوں یا عزیزوں کے ساتھ ان مناظر کو دیکھ نہیں سکتا ، ہندو تحریکات پر بھی وقفہ وقفہ سے بے حیائی کی چھاپ نمایاں رہی ہے ، اس کی واضح مثال اچاریہ ’’ رجنیش ‘‘ اور ’’ ہرے راما ہرے کرشنا تحریک ‘‘ ہے ، اس لئے یہ ایک تلخ حقیت اور کڑوی سچائی ہے کہ ہندو مذہب کی جو تصویر اس وقت ہمارے سامنے ہے ، وہ اخلاقی نقطۂ نظر سے کسی مذہب کے شایان شان نہیں اور ہمیں یقین ہے کہ یہ مذہب کی حقیقی تعلیمات میں آمیزشوں اورملاوٹوں کا نتیجہ ہے ، ورنہ کسی مذہب کے بارے میں ایسی حیا باختہ فکر کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔
ہندو سماج میں عورتوں کی مظلومیت بھی ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں ، منو سمرتی عورتوں کے بارے میں صاف کہتی ہے کہ کسی عورت پر کبھی بھروسہ مت کرو ، کسی بھی عورت کے ساتھ تنہا مت بیٹھو خواہ وہ تمہاری ماں ہو ، یا بیٹی یا بہن ، وہ آپ کو غلط ترغیب دے سکتی ہے ، اسے شوہر سے علاحدگی کا حق نہیں ، نہ ہندو مذہب میں اس کے لئے میراث ہے ، نہ وہ اپنے لئے رشتہ منتخب کر سکتی ہے ، بیوہ عورتیں منحوس سمجھی جاتی ہیں ، وہ دوسری شادی نہیں کرسکتیں ، ان کو زندگی بھر بناؤ سنگار سے دُور رہنا ہے اور سب سے بڑا ظلم ’’ ستی ‘‘ کی رسم ہے ، ہندو عقیدہ کے مطابق ایک عورت کے ستی ہونے کی وجہ سے تین خاندان کے گناہ معاف ہوتے ہیں ، اس کے والد کا خاندان ، اس کی والدہ کا خاندان ، اور اس کے شوہر کا خاندان ، اس ترقی یافتہ دور میں بھی ستی کی وکالت کرنے والے لوگ موجود ہیں ، پوری کے شنکر اچاریہ نے علی الاعلان کہا ہے کہ بیوہ عورت کے لئے ستی ہونے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں اور حکومت کے ذریعہ اس رسم پر پابندی لگائے جانے کی وہ پوری قوت سے مخالفت کریںگے ، خواہ انھیں پھانسی پر کیوں نہ چڑھا دیا جائے ، جب ان سے پوچھا گیا کہ ایسی خواتین کے بچوں کا کیا ہوگا ؟ تو بے تکلف جواب دیا کہ یہ تقدیر کا لکھا ہے ، بچے خواہ تکلیف اُٹھائیں یا مر جائیں ، ستی بہر حال ہندو مذہب میں جاری رکھی جائے گی ، جب ہندو مذہب کے سب سے بڑے پیشوا ستی کے وکیل و نقیب ہوں تو اگر روپ کنور یا ان جیسی دوسری بھولی بھالی خواتین کے ستی ہونے کا واقعہ پیش آتے تو تعجب نہ ہونا چاہئے !
اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ اخلاقی بے راہ روی اور عورتوں کے ساتھ زیادتی اورنا انصافی ہندوسماج میں موجود ہے اور سب سے بدبختانہ بات یہ ہے کہ اس کو مذہبی رنگ دے دیا گیا ہے ، یہ کہنا تو بہر حال صحیح نہ ہوگا کہ ہندوستان کی تمام مذہبی شخصیتوں کے بارے میں یہ رائے قائم کرلی جائے کہ وہ سب ایسی باتوں میں برابر کے شریک ہیں ، یقیناً ان میں شریف ، سمجھ دار ، تقاضۂ حیا سے آگاہ اور انسانی نجابت کی ترجمان شخصیتیں بھی ہوں گی اور ان سب کے بارے میں ایک ہی طرح کا خیال قائم کر لینا شاید قرین انصاف نہ ہو — لیکن سوال یہ ہے کہ کہاں پر سچائی کا اعلان و اظہار کیا جانا چاہئے ؟ غالباً اس کا جواب نفی میں ہے ۔
ایسی سچائی جو سماج کو فائدہ کی بجائے نقصان پہنچائے ، جو خیر کی اشاعت کی بجائے بدی کی تشہیر کا باعث ہو ، جو لوگوں کو شرافت و صالحیت کی بجائے بد خوئی کی طرف لے جاتی ہو، اس سچائی کو ظاہر کرنے سے چھپانا بہتر ہے ؛ اسی لئے رسول اللہ ﷺنے بعض مواقع پر جھوٹ بولنے کی اجازت دی ہے ؛ کیوں کہ یہاں جھوٹ بمقابلہ سچ کے زیادہ مفید اور نفع بخش ہے ، اگر ایک مظلوم اور کمزور شخص نے آپ کے یہاں پناہ لے رکھی ہے ، ایک بے بس عورت اپنی عصمت و عزت کی حفاظت کے لئے چھپی ہوئی ہے اور ایک ظالم اس مظلوم کے قتل اور ایک اوباش اس عورت کی عصمت ریزی کے درپے ہواور آپ کے جھوٹ سے اس شخص کی جان اوراس عورت کی عزت بچ سکتی ہو اور آپ کے سچ سے جان جاسکتی ہو اور ایک عورت کی چادر عفت تارتار ہو جانے کا اندیشہ ہو تو ان حالات میں آپ کے لئے جھوٹ بولنا ہی واجب ہے اور سچ بولنا اس جرم میں شریک ہونے کے مترادف ہے ۔
فلم خواہ کوئی بھی ہو ، اسلامی نقطۂ نظر سے وہ گناہ ہی ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فلم بنیادی طور پر بُرائی کی ترویج اور سفلی جذبات کی تحریک ہی کا ذریعہ ہے ، اس سے کسی خیر کی توقع نہیں ؛ لیکن ایسی فلمیں جن کا مقصد شروع سے اخیر تک نفسانی جذبات کی تسکین ہی ہو ، جس کا منشا بُرائی کی خاص طور پر تشہیر ہو اور جو مذہبی جذبات کے احترام اور تقدیس کی حدوں کو بھی مجروح کرتی ہو ، یقیناً شر بالائے شر اور گناہ برتر از گناہ ہے ، ممکن ہے کہ سنگھ پریوار کے لوگ اس لئے اس فلم کی مخالفت کر رہے ہوں کہ اس سے برہمنی افکار و تصورات پر زد پڑتی ہے اور ہندو تمدن کی حقیقی تصویر سامنے آتی ہے ؛ لیکن اس سے قطعِ نظر تمام ہی سنجیدہ لوگوں کے لئے یہ اوراس طرح کی فلمیں قابل مذمت ہیں کہ ایک تو اس سے بُرائی کی تشہیر ہوتی ہے ، دوسرے اس سے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی نہایت ہی ناشائستہ اور غلط روایت قائم ہو رہی ہے ، جو بڑے فساد اور انتشار کا موجب بن سکتا ہے ، قرآن مجید نے تو اس پہلو کو اس قدر ملحوظ رکھا ہے کہ شرک سے بڑھ کر اسلام میں کوئی شئے قابل مذمت نہیں ؛ لیکن مشرکین جن دیویوں ، دیوتاؤں کی پرستش کرتے ہوں ، ان کو برا بھلا کہنے سے بھی منع کیا گیاکہ ہر انسان کے لئے اپنے مذہب پر رہتے ہوئے دوسروں کے مذہبی جذبات کا احترام ملحوظ رکھنا ضروری ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×