اسلامیات

حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق مختلف نظریات اور کرسمس

موجودہ عیسائی اپنا رشتہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے جوڑتے ہیں، جب کہ اس دنیا میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق تین طرح کے نظریات پائے جاتے ہیں: (۱)پہلا نظریہ یہ ہے کہ وہ ’ابن اللہ‘ اور ’اقانیمِ ثلٰثہ‘ کے ایک جز ہیں، یہ نظریہ عیسائیوں (Christians)کا ہے (۲) دوسرا نظریہ یہودیوں (Jews) کا ہے، جو العیاذ باللہ آپ کی ولدیت کے متعلق سوال اٹھاتے ہیں (۳) تیسرا نظریہ یہ ہے کہ مسیح علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے پیغمبر ہیں، ایک مدت زمین پر رہے، پھر آسمان پر اٹھا لیے گئے اور قربِ قیامت پھر نازل ہوں گے اور شریعتِ محمدیہ کے مطابق زندگی کزاریں گے، ایک مدت تک قیام کریں گے اور پھر وفات پاکر مدینہ منورہ میں مدفون ہوں گے۔ مذکورہ بالا تینوں نظریات و عقائد میں سے پہلا افراط تو دوسرا تفریط پر مبنی ہےکہ اول نے آپ کا درجہ الوہیت سے ملا دیا، دوسرے نے آپ کے جائز وجود کا بھی انکار کر دیا، جب کہ تیسرا نظریہ اسلام کا ہے جو اس افراط و تفریط سے مکمل طور پر پاک اور مسلمانوں کا مسلّمہ عقیدہ اور قرآن و احادیث سے مدلل طور پر ثابت شدہ ہے۔
موجودہ عیسائی مذہب
موجودہ عیسائی مذہب نے خدا کے تصور کی جو تفصیلات بیان کی ہیں، وہ بڑی الجھی ہوئی ہیں اور ان کا سمجھنا آسان نہیں ہے۔ یہ بات ہر کس و ناکس کو معلوم ہے کہ عیسائی مذہب میں خدا تین اقانیم (Persons) سے مرکب ہے: باپ، بیٹا اور روح القدس۔ اسی عقیدے کو عقیدۂ تثلیث (Trinitarian Doctrine) کہا جاتا ہے، لیکن بہ جائے خود اس عقیدے کی تشریح و تعبیر میں عیسائی علما کے بیانات اس قدر مختلف اور متضاد ہیں کہ یقینی طور سے کوئی ایک بات کہنا بہت مشکل ہے۔ وہ تین اقانیم کون ہیں، جن کا مجموعہ ان کے نزدیک خدا ہے؟ خود ان کی تعیین میں بھی اختلاف ہیں، بعض کہتے ہیں کہ خدا‘باپ، بیٹے اور روح القدس کے مجموعے کا نام ہے[عام عیسائیوں کا یہی مسلک ہے]، اور بعض کا کہنا ہے کہ باپ، بیٹا اور کنواری مریم‘ وہ تین اقنوم ہیں، جن کا مجموعہ خدا ہے، پھر ان تین اقانیم میں سے ہر ایک کی انفرادی حیثیت کیا ہے اور خداے مجموع (Trinity) سے اس کا کیا رشتہ ہے؟ اس سوال کے جواب میں بھی ایک زبردست اختلاف پھیلا ہوا ہے۔ ایک گروہ کا کہنا ہے کہ ان تین میں سے ہر ایک بہ ذاتِ خود بھی ویسا ہی خدا ہے‘جیسا مجموعۂ خدا، ایک دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ ان تینوں میں سے ہر ایک الگ الگ خدا تو ہیںمگر مجموعۂ خدا سے کم تر ہیں، اور ان پر لفظِ خدا کا اطلاق ذرا وسیع معنی میں کر دیا گیا ہے، تیسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ تین خدا ہی نہیںہیں، خدا تو صرف ان کا مجموعہ ہے۔غرض اس قسم کے بے شمار اختلافات ہیں جن کی وجہ سے تثلیث کا عقیدہ ایک ’خوابِ پریشاں‘ بن کر رہ گیا ہے۔[بائبل سے قرآن تک] رواداری ہو دین بے زاری نہیں
کرسمس عیسائی مذہب کا خالص مذہبی تہوار ہے، اس لیےمسلمانوں کو اس میں شمولیت سے احتراز کرنا چاہیے، فی زمانہ بہت سے لوگ مذہبی رواداری کے نام پر دین بے زاری کی دعوت دیتے نہیں تھکتے اور وہ تمام غیر شرعی کاموں کو دھڑلّے سے انجام دیتے ہیں، جب کہ شریعت اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتی، انھیں یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام میں رواداری کا مطلب دین بے زاری ہرگز نہیں۔باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:اِنَّا هَدَيْنٰهُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا۝ ہم نےاُسے راستہ دکھا دیا اب خواہ شکر گزار ہو، خواہ نا شکرا۔[سورہ دہر] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’میثاقِ مدینہ‘ کے نام سے یہودی اور دیگر لوگوں سے جو معاہدہ کیا وہ عالم کا پہلا ایسا منشور قرار پایا‘ جس میں انسانیت کے حقوق کا سب سے زیادہ پاس و لحاظ رکھا گیا تھا، اس معاہدے کے تحت مذہبی رواداری پر مبنی جو حقوق غیر مسلموں کو حاصل ہوئے ، من جملہ ان کے دو یہ تھے :(۱) ایک یہ کہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو بھی مذہبی و سیاسی سطح پر وہی حقوق حاصل ہوں گے جو مسلمانوں کو حاصل ہیں(۲) دوسرے یہ کہ دونوں فریق مل کر دشمنوں سے اس امتِ متحدہ کی حفاظت کریں گے اور دونوں مل کر دفاعی اخراجات کی ذمّے داریاں اٹھائیں گے، اور اس اسلامی مملکت میں غیر مسلموں کو داخلی طور پر بھی کامل خود مختاری دی گئی، جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:وَلْيَحْكُمْ اَهْلُ الْاِنْجِيْلِ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فِيْهِ۔ عیسائیوں کو چاہیے کہ وہ انجیل کے مطابق فیصلہ کریں۔[سورہ مائدہ]یہی وجہ تھی کہ مدینہ منورہ میں ساری حکومت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک میں آجانے کے باوجود‘آپ نے یہودیوں پر اسلام لانے کے لیے کوئی جبر نہیں کیا اور فتحِ مکہ کے موقعے پر بھی ایسی فراخ دلی کا مظاہرفرمایاجس کی مثال معلوم دنیا میں ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے مذہب کو اسلامی غیرت نے اپنا لیا۔مختصر یہ کہ اسلام میں رواداری کا تصور یہ نہیں ہے کہ مختلف اور متضاد باطل خیالات کو درست قرار دے دیا جائے بلکہ اسلام کی رو سے مذہبی رواداری کے معنی یہ ہیں کہ جن لوگوں کے عقائد یا اعمال ہمارے نزدیک غلط ہیں‘ ان کو ہم برداشت کریں ، ان کے جذبات کا لحاظ کر کے ان پر ایسی نکتہ چینی نہ کریں‘ جو ان کو رنج پہنچانے والی ہو اور اُنھیں ان کے اعتقاد سے پھیرنے یا ان کے عمل سے روکنے کے لیے زبردستی کا طریقہ اختیار نہ کریں۔اس قسم کے تحمل اور اس طریقے سے لوگوں کو اعتقاد و عمل کی آزادی دینا نہ صرف ایک مستحسن فعل ہے بلکہ مختلف الخیال جماعتوں میں امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے،لیکن اگر ہم خود ایک عقیدہ رکھنے کے باوجود محض دوسرے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ان کے مختلف عقائد کی تصدیق کریں اور خود ایک دستور العمل کے پیرو ہوتے ہوئے، دوسرے مختلف دستوروں کا اتباع کرنے والوں سے کہیں کہ آپ سب حضرات برحق ہیں تو اس منافقانہ اظہارِ رائے کو کسی طرح رواداری سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا،مصلحتاً سکوت اختیار کرنے اور عمداً جھوٹ بولنے میں آخر کچھ تو فرق ہونا چاہیے۔[ تفہیمات،بتصرف] علامہ ابنِ تیمیہؒ کا فتویٰ
علامہ ابنِ تیمیہؒ فرماتے ہیں:موسمِ سرما میں دسمبر کی خاص تاریخ کو لوگ بہت سے کام کرتے ہیں،عیسائیوں کے خیال میں یہ دن حضرت عیسیٰ کی پیدائش کا دن ہے۔اس میں جتنے بھی کام کیےجاتے ہیں‘ مثلاًآگ روشن کرنا، خاص قسم کے کھانے تیار کرنا اور موم بتیاں وغیرہ جلانا،سب کے سب مکروہ و ناپسندیدہ ہیں۔اس دن کو عید سمجھنا عیسائیوں کا دین و عقیدہ ہے،اسلام میں اس کی کوئی اصلیت نہیں اورعیسائیوں کی اس عید میں شامل ہونا جائز نہیں۔[اقتضاء الصراط المستقیم] [مضمون نگار دارالافتا نالاسوپارہ، ممبئی کے مفتی ہیں]

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×