اسلامیات

موت ایک ناقابل انکار حقیقت

دنیاوی زندگی دارالعمل ہیے، نیک اعمال کاپوراپورابدلہ اور برے اعمال کی پوری سزا اس دنیامیں اللہ تبارک وتعالی نہیں دیتاجیساکہ اللہ تعالی نے قرآن میں فرمایا، وانماتوفون اجورکم یوم القیامہ، یعنی اعمال کاپوراپورابدلہ قیامت کے دن دیاجائے گا،دنیامیں تھوڑی بہت سزا توکسی برائی کی کبھی اللہ دیدیتاہیے، لیکن پوراپورابدلہ قیامت کے دن ہی ملے گا، جب دنیا دارالعمل ہیے، وقتی زندگی ہیے، اصل زندگی آخرت کی ہیے، اس دنیا سے ہرانسان کوکوچ کرجانا ہیے، اسی لئے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے بارے میں فرمایا، کن فی الدنیاکانک غریب، اے عبداللہ بن عمر دنیا میں آپ ایسے ہی رہو جیسے ایک مسافر رہتاہیے، مطلب یہ کہ دنیا کی طرف مت مائل ہو دنیا کی لذتوں سے لطف اندوز مت ہو،لوگوں سے زیادہ مل جل کر مت رہو کیونکہ ایک دن لوگوں کوچھوڑکرجانا ہیے،

آگے آقانے فرمایا،
اوعابرسبیل، یعنی دنیا میں تم مسافر کی طرح ہوبلکہ ایک راہ گیر کی طرح ہو کیونکہ مسافر تو کسی شہر میں قیام بھی کرلیتا، لیکن راہ گیر اپنی منزل مقصود کی طرف نظر رکھتاہیے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کامطلب یہ ہیے کہ دنیا کی لذتوں میں مست ومگن ہوکر آخرت کومت بھول جاو بلکہ جس طرح ایک مسافر کہیں سفر کرنے سے پہلے تیاری کرتاہیے ایسے ہی تم بھی اپنے آخرت کے سفر کے لئے تیاری کرو،

ایک دوسری حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
اکثروھاذم اللذات الموت،
لذتوں کو ختم کرنے والی چیز یعنی موت کوکثرت سے یاد کرو، موت کو یاد کرنے کامطلب یہ ہیے کہ موت کوبھول نہ جاو کہ تم قیامت کے دن سے غافل ہوجاو بلکہ موت کو کثرت سے یاد کرو، موت کوکثرت سے یاد کرنے کامطلب یہ ہیے کہ آخرت کی تیاری کرو، اعمال خیر میں سبقت کرو، برائیوں سے اجتناب کرو، کیونکہ جب موت کو یاد کروگے توآخرت سے غافل نہیں رہوگے،

موت ایک ایسی چیز ہیے جس کاعلم سوائے اللہ کے کسی کونہیں، ان پانچ چیزوں میں جس کاعلم صرف اللہ کو ہیے ان میں موت بھی ہیے،جب موت کاوقت متعین نہیں، نہ ہی انسان کوموت سے چھٹکارا ہیے کہ موت سے بچ نکلے اور حساب وکتاب اس کا نہ ہو،

اللہ نے قرآن میں فرمایا،
اے انسانوں اور جنات کی جماعت تم آسمان وزمین کے کناروں سے پارہونے پر قادر ہوتوپارہوجاو، پاروہی ہوسکتاہیے جوطاقت ور ہو، مطلب یہ ہیے کہ تم اللہ کی قضاء سے بچ کرنہیں نکل سکتے بلکہ ایک دن تمہیں موت آئے گی اور حساب وکتاب کے مراحل سے گزرناہوگا، حساب وکتاب سے کوئی مفر نہیں، اللہ کو تم دھوکہ دے سکو اے انسانوں اور جناتوں کی جماعت تم اس پر ہرگز قادر نہیں،لہاذا موت کا ہمیشہ استحضار رکھو اور ہر آن اور ہرلمحہ اس کی تیاری میں ہمہ تن گوش رہو،

قرآن کریم میں دوسری جگہ اللہ فرماتاہیے،
این ماتکونوایدرکم الموت..آل عمران،
یعنی تم جہاں کہیں بھی رہوگے موت تمہیں دبوچ لے گی اگرچہ تم مضبوط قلعہ میں ہی کیوں نہ ہوں، مطلب یہ ہیے کہ موت سے کوئی چھٹکارانہیں، ہرنفس کوموت کامزہ چھکنا ہیے، اور داردنیا سے دارآخرت کی طرف کوچ کرنا ہیے،

موت ایک ایسی حقیقت ہیے جس کے بارے میں کسی کاکوئی اختلاف نہیں، ہرشخص موت کاقائل ہیے، اور موت کے سلسلہ میں کیونکر کوئی اختلاف کرسکتاہیے جب کہ ہرشخص اس کامشاہدہ کرتارہتاہیے، کہ انسان کاجسم جس پر انسان کوناز ہوتاہیے، حضرت عزرائیل علیہ السلام جب روح قبض کرلیتے ہیں، وہ جسم کسی کام کانہیں رہتا،روح قبض ہونے کے بعد ساری دنیا کے انسان مل کر روح کودوبارہ واپس نہیں لاسکتے،

خداکے منکرین اگر اس بات پر بھی غورکریں تو دنیاکاکوئی خالق انہیں ضرور نظر آئے گا، کیونکہ جو جسم تھوڑی دیر پہلے بالکل ٹھیک تھا، ایکبارگی کیاہوگیا کہ بولنے پر بھی قادر نہیں،

موت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کاتحفہ قراردیاہیے، کیونکہ مرنے کے بعد اخروی زندگی کی جانب رسائی ہوگی، اور نیک اعمال کاپوراپورابدلہ دیاجائے گا،

ایک عقل مند انسان وہی ہیے جو اپنی اصلی اورلابدی زندگی کے لئے تیاری کرے، کیونکہ جب دنیاوی سفر کے لئے پہلے سے تیاری کرتے رہتے ہیں کہ سفر کے اندر کوئی پریشانی اور مصیبت کاسامنانہ کرناپڑے، توآخرت کاسفر توہمیشگی کاسفر ہیے، ایسی جگہ کوچ کرنے کی جگہ ہیے جہاں سے دوبارہ لوٹ کرنہیں آنا ہیے،لہاذا ہماری توجہ دنیاکے مال ومتاع پرہو اور اپنی اخروی زندگی کوسجانے سنوارنے سے بالکل غافل ہوجائیں توایسا شخص بیوقوف ہیے، عقل مند تو وہ ہیے جو اپنی لابدی اوراخروی زندگی کے لئے محنت کرے اور ہر آن اور ہرلمحہ آخرت کوسجانے میں مصروف ہو، اور اپنے ہر عمل میں قرآن وحدیث کی پیروی کرے،

دنیاوی زندگی کوبہتر بنانے سے اسلام میں منع نہیں کیاگیا ہیے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے اس دعاکوپڑھاکرتے تھے "ربنا آتنا فی الدنیا حسنہ وفی الاخرہ حسنہ، یعنی دنیا اور آخرت کی بھلائی سے نواز دے، اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فن تفسیر کے امام امام فخرالدین رازی رحمہ اللہ نے دنیا کی بھلائی اور آخرت کی بھلائی میں کئی قول نقل کئے ہیں، دنیا کے اندر بھلائی مراد نیک بیوی، کشادہ گھر، مال کثیر، یہ تمام چیزیں مراد ہیں، لہاذا دنیا کوبہتر بنانے کی نفی کرنا اور یہ کہنا کہ دنیا کوبہتر بنانے سے اسلام میں منع کیاگیا ہیے، ایساکہنے والا پلہ درجہ کاجاہل ہیے، قرآن کے خلاف اس کا قول ہیے، دنیاکو بہتر بناو اس سے منع نہیں کیاگیا ہیے، ہاں آخرت سے غافل ہونا اس سے منع کیاگیا ہیے،

آج کل مسلمانوں میں بہت ہی خرابی یہ پیداہوگئی ہیے کہ مسلمان صرف نماز پڑھ لینے کو آخرت کی تیاری سمجھتاہیے، اور دوسرے احکام میں شریعت کی پاسبانی کو ضروری نہیں سمجھتا، نماز توفرض ہیے ضروری ہیے لیکن ایسابھی نہیں ہیے صرف نماز ہی ضروری ہیے اوردوسرے شرعی احکام سے ہم غافل رہیں، شریعت کی خلاف ورزی کریں، خاص کر آج کل ساری توجہ عبادات پر ہیے، معاملات کی درستگی کوہم سرے سے دین سمجھتے ہی نہیں، حالانکہ حقوق العباد اسلام میں بہت اہم ہیے، حقوق العباد کی اہمیت کااندازہ آپ مسلم شریف کی اس روایت سے لگاسکتے ہیں، قیامت کے دن ایک عبادت گزار کوحاضرکیاجائے گا، جس نے دنیا میں بہت زیادہ عبادات کیا، خوب نمازیں پڑھیں، روزہ رکھے،لیکن اس کے اندر کمی یہ تھی کہ لوگوں سے معاملات درست نہیں تھے، کسی کوگالی دیتاتھا، کسی کی حق تلفی کرتا تھا، کسی سے لڑائی جھگڑاکرتاتھا، قیامت کے دن پائی پائی کاحساب ہوگا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، جن لوگوں کے ظلم وزیادتی دنیا میں کیاتھا، ان کو اس کے بدلہ نیکیاں دلائی جائیں گے، جبکہ اس کی نیکیاں ختم ہوجائیں گے تودنیا میں جتنا ظلم وستم ان پر کیاتھا اس کے بقدر گناہ اس پر ڈال دئیے جائیں گے، اور وہ شخص جودنیامیں خوب عبادت کیا اس کوجھنم میں ڈال دیاجائے گا، حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد پر پوری توجہ دی جائے، معاملات کی درستگی کا خاص خیال رکھاجائے، ہر آن ہرلمحہ موت کا استحضار ہو، اخروی سفر کی تیاری کے لئے ہمہ تن گوش ہو، اللہ تعالی کوجنت الفردوس میں اعلی ٹھکانہ نصیب فرمائے…آمین…

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×