سیاسی و سماجی

احتیاط ہمت اورمثبت سوچ سے کرونا کے خلاف جہاد کریں

منفی سوچ اورToxic Thoughtsسے پرہیز ضروری امریکی پروفیسر برائے نفسیات ڈاکٹر محمد قطب الدین کا سینئرصحافی ڈاکٹر تبریزتاج کے ساتھ انٹرویو
ساراعالم کرونا کی دوسری لہر سے کانپ رہا ہے۔لوگ بے حد پریشانیوں میں مبتلہ ہیں۔ایک جانب کرونا، دوسری جانب آکسیجن اور دواخانوں میں بستر دستیاب نہ ہونے سے سنگین صورتحال درپیش ہے۔آج کے اپنے مضمون میں ہم اِس تازہ صورتحال پرامریکی پروفیسر برائے نفسیات ڈاکٹر محمد قطب الدین سے ٹیلیفونگ انٹریو کیا ہے کہ کس طرح اِن حالات کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ڈاکٹر محمد قطب الدین جنہوں نے نامور تعلیمی اداروں سے نفسیات میں ایم ڈی، پی ایچ ڈی کی ہے۔ کامیاب ماہر نفسیات کے طورپر دنیا بھر میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ڈاکٹر محمد قطب الدین نے راقم الحروف سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی وبائیں تاریخ انسانی میں آئی ہیں اور آتی رہیں گی۔کیونہ دنیا میں ہر سوسال، پچاس، یا تیس برس میں ایک مرتبہ ایسی وبائیں آتی ہیں۔ یہ انسانی زندگیوں کا حصہ ہے۔نادیدہ جراثم سے پھیلنے والی وباء سے محفوظ رکھنے کیلئے احتیاطی تدابیر ہی بے حد ضروری ہیں۔اُنہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ ایسے حالات میں احتیاط ہی زندگی ہے اور غفلت موت کا سبب بن سکتی ہے۔
ڈاکٹر محمد قطب الدین نے کہا کہ کرونا سے گھبرانے یا خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔کیونکہ اگر انسان خوفزدہ ہوتا ہے تو وہ ذہنی اعتبار سے کمزور ہوتا ہے۔ خوف اور گھبراہت کی وجہ سے ذہن میں قوت مدافعت کم ہوجاتی ہے۔قوت مدافعت کم ہونے سے نفسیاتی طور پر اضطراب امیز کیفیت پیدا ہوتی ہے۔جس سے ایسے انسان کا جسمانی نظام کمزور ہوتا ہے اور اُس پرعلاج اثر انداز نہیں ہوتا ہے۔اُنہوں نے کہا کہ سب سے پہلے انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے دماغ کو سکون کی کیفیت میں رکھے کیونکہ کرونا لاعلاج وباء نہیں ہے بلکہ احتیاط اور موثر علاج کے ذریعے اِس پر پوری طرح قابو پایا جاسکتا ہے۔ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ کرونا ہوبھی جاتا ہے تو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔بلکہ اپنے اندر قوت مدافعت پیدا کرتے ہوئے اس سے کامیابی کے ساتھ لڑا جاسکتا ہے۔
امریکی پروفیسر برائے نفسیات کا کہنا ہے کہ کر ونا کی وجہ سے تنفسی نظام مثاثر ہوتا ہے۔جسے سے انسان کے پھیپھڑے خراب ہوجاتے ہیں۔پھیپھڑوں کو طاقتور بنانے کیلئے انسان کو چاہئے کہ وہ ورزش کریں۔جبکہ عصبی نظام کو درست رکھنے کیلئے اپنے آپ کو طاقتور سمجھنا چاہئے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔قلب کو بہتر اور طاقتور بنانے کیلئے اچھی غذا کا استعمال کرنا چاہئے کہ تاکہ دل کمزار نہ ہوں۔دل دماغ اور پھیپھڑوں کو اچھا رکھنے سے ہی کرونا سے انسان جیت جاتا ہے۔
ڈ اکٹر محمد قطب الدین نے کہا کہ کرونا کے پھیلاؤ اور روک تھام میں نوجوانوں کا اہم رول ہوتا ہے۔کیونکہ نوجوانوں کی اکثریت باہر گھومتی ہے۔اُنہوں نے نوجوانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ضرورت پڑھنے پر ہی باہر نکلیں ورنہ گھروں میں ہی محفوظ رہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ نوجوانوں میں قوت مدافعت زیادہ ہوتی ہے وہ قابل برداشت ہوتے ہیں لیکن اِن نوجوانوں کی غفلت کی وجہ سے گھر میں موجود بچے اور صعیف العمرافراد مثاثر ہوسکتے ہیں۔لہذا نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ گھرمیں موجود بچوں اور بڑوں کا خیال کرتے ہوئے احتیاط برتیں تاکہ وہ محفوظ رہے سکیں اور اُن سے اُن کے گھر کے افرا د بھی محفوظ رہے سکیں۔
سوشل میڈیا کے دور میں افواہوں پر توجہ نہ دینے کا ڈاکٹر صاحب نے مشورہ دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ آج سوشل میڈیا پر طرح طرح کے مشورے اور گمرہ کن علاج کی نصیحتیں گشت کررہی ہیں۔اس طرح کے بے بنیاد نصیحت اور مشوروں پر عمل کرتے ہوئے انسان سیلف میڈیسین لیتا ہے تو یہ بھی اس کی زندگی کیلئے خطرناک ثابت ہوتا ہے۔اُنہوں نے کہا کہ آج کل خوف کے عالم میں لوگ جو بھی سوشل میڈیا پر آرہا ہے اُس پر یقین کررہے ہیں۔اور اس پر عمل بھی کررہے ہیں۔کسی ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر خود اپنی جانب سے علاج کرلینا نقصان کو سودا بن جاتا ہے۔اُنہوں نے لوگوں کو پہلے تو یہ مشورہ دیا کہ وہ کسی بھی افواہوں کوبلا کسی ماہر کے تصدیق کے آگے مت پھیلائیں اور دوسری اہم بات یہ کہ سوشل میڈیا پر آنے والے کسی بھی نسخہ کو آزمانے سے قبل اپنے ڈاکٹر کا مشورہ لیں۔ورنہ نیم حکیم خطرے جان کی کہاوت سوشل میڈیا کی افواہوں اور غیر ذمہ دارانہ علاج کے مشوروں کی وجہ سے حقیقت میں تبدیل ہوجائیگی۔
ڈاکٹر قطب الدین نے کہا کہ انسان اپنے بہترین اور کامیاب مستقبل کی سوچ سے اپنے اندر مثبت سوچ وفکر پیدا کرسکتا ہے۔ یہ مثبت سوچ (Positive Thinking) ہی انسان میں قوت مدافعت پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔انسان کو Futuristic اورoptimisticہونے کی ضرورت ہے۔خوش رہنے سے انسان اس طرح کے حالات کا موثر انداز سے مقابلہ کرسکتا ہے۔اگر خوفزدہ ہوتا ہے توذہنی خلاء پیدا ہوتی ہے۔اِس طرح کے خوف کو دور کرنے کے لئے لاحول ولاقوۃالاباللہ کا ذکر کریں جسے سکون ملتا ہے۔ہمت کیلئے اپنے دماغ کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔جو مثبت سوچ سے ممکن ہے۔اور دعائیں بھی انسان کے اندر روحانی یعنی ایک قسم کی طاقت پیدا کرتی ہیں جو اسطرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے اُس کے جسم میں قوت دیتی ہیں۔
حالات کے مقابلے کے لئے حقیقت سے انحراف کرنا پڑتا ہے یہ مقام آیا تو ہمیں کیسے پار کرنا ہے اُس کی تدبیریں کرنی چاہئے۔مثبت سوچ اور طاقتور سوچ سے ہی حالات کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ڈاکٹر صاحب سے بات چیت میں اُنہوں نے کہا کہ مثبت سوچ، خوش مزاجی،ورزش اور تغذیہ بخش غذا کے استعمال سے اپنے آپ کو طاقتور بناسکتے ہیں تاکہ اس طرح کے مشکل حالات سے کا مقابلہ کرسکیں۔
ڈاکٹر صاحب نے یہ واضح کردیا کہ اُنہوں نے اپنی شریک حیات کے ہمراہ کویڈ کے انسداد کا ٹیکہ لیا ہے۔ اُنہوں نے مشورہ دیا ہے کہ ٹیکے کے تعلق سے افواہوں پر توجہ نہ دیں۔افواہوں پر توجہ دیں گے تو آپ ساز ش کا حصہ بن جائیں گے۔کیونکہ یہ ٹیکہ انسان کے ا ندرقوت مدافعت کو بڑھا تا ہے۔جو کرونا سے لڑنے میں انسان کیلئے مددگا ر ثابت ہوتا ہے۔ڈاکٹر صاحب نے ٹیکہ کاری کے تعلق سے افواہوں کو مسترد کیا اور کہا کہ ٹیکے کونسل کشی یا مسلمانوں کو کمزور کرنے کی سازش قرار دینا دراصل کمزور سوچ اور تعصب کی علامت ہے۔کیونکہ کرونا سے دنیا میں صرف مسلمان ہی متاثر نہیں ہورہے ہیں بلکہ اِس کی زد میں سب عام وخاص بلالحاظ ذات پات مذہب وجنس شامل ہیں۔ ایسے میں ٹیکے کے تعلق سے گمراہ کن باتیں کرنا محص حماقت اور بے قوفی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے حکومت کی جانب سے نافذ کیے گئے اُصولوں پر عمل کرنے کا سب کو مشورہ دیا۔ ماسک کے استعمال کو یقینی بنانے اور سماجی فاصلے کا خیال کرنے ساتھ ساتھ صفائی پر توجہ دینے کی بات کہی۔اُنہوں نے کہا کہ ایسی حکمت عملی اختیار کریں جس سے رمضان کے موقع پر عبادتیں بھی ہواور اُصولوں پر عمل بھی ہو۔ اُنہوں نے نوجوانوں کو بازار کی زینت نہ بننے کا مشورہ دیا۔
ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ زندگی کوبچانا فرض ہے۔ لہذ ا غفلت کی وجہ سے موت کا مزہ چکیں گے تو زندگی کے حسین لمحوں اور قدرت کے انمول تحفوں کا مزہ چکنے سے محروم ہوجاؤگے۔اپنے بھی چھوٹ جائیں گے اپنوں کے آپ سے جو سپنے ہیں وہ بھی ٹوٹ جائیں گے۔لہذا اُنہوں نے مثبت سوچ وفکر کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنے اوراحتیاط برتنے کا مشورہ دیا۔
ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ دماغ سے منفی سوچ کو ختم کرنا چاہئے۔weed out negative thinking and Toxic thoughts منفی سوچ سے مراد انسان کے دماغ میں جنم لینے والے برے خیالات ناکامی کا خوف مایوسی کے خیالات وغیرہ وغیرہ۔ ایسے خیالات اگر ذہین میں آتے ہیں تو فورا اِسے ہٹانا چاہئے۔اپنے ذہن کو مثبت سوچ کی طرف مائل کرنا چاہئے۔get psyched upیعنی انسان کو عزم مصمم کرلینا چاہئے۔اُنہوں نے عزائم کو ہمالہ کی طرح بلند رکھنے کا مشورہ دیا تاکہ کوئی بھی چیز ٹکراکر پارہ پارہ ہوجائیگی۔اُنہوں کہا کہ یہ اپنے آپ کو ذہنی طورپر انتہائی مستحکم اور مضبوط رکھنے کا ہے تاکہ حالات کا میابی سے مقابلہ کرسکیں۔ڈاکٹر صاحب نے شاعرمشرق علامہ اقبال کے اس شعر سے اپنی بات کا اختتام کیا کہ
تو اسے پیمانہ امروزوفرداسے نہ ناپ
جاوداں پہم رواں ہردم جواں ہے زندگی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×