احوال وطن

جماعت اسلامی اور دہلی وقف بورڈ دہلی فساد متاثرین کی باز آبادکاری کے لئے کریں گے مل کر کام

نئی دہلی: 11؍مارچ (پریس ریلیز)  شمال مشرقی دہلی فساد متاثرین میں جماعت اسلامی ہند رضاکاروں پر مشتمل مختلف ٹیمیں بنا کربڑے پیمانے پر راحتی کام انجام دے رہی ہے۔ جماعت نے طبی امداد، قانونی امور دیکھنے ، نقصانات کا صحیح اندازہ لگانے کے لیے ، سروے کرنے کے لیے اور نتشدد کے عوامل کا سراغ لگانے کے لئے الگ الگ ٹیمیں تشکیل دی ہے۔جماعت اسلامی ہند نے خدمت خلق کے کل ہند سکریٹری جناب محمد احمد صاحب کو نقصانات کا اندازہ لگانے اور متاثرین کی بازآبادکاری اور بحالی میں آنے والے تخمینے کا سروے کرانے کی ذمہ داری سونپی ہے ۔ جناب محمد احمد صاحب نے دہلی وقف بورڈ کے دفتر میں بورڈ کے چیئر مین امانت اللہ خاں سے ملاقات کی اور مکمل تعاون دینے کی بات کہی۔انہوں نے جناب امانت اللہ خاں سے کہا کہ جماعت بورڈ کے ساتھ مل کر دہلی فسادات میں جو بھی لوگوں کے گھر وں اوردکانوں کا نقصان ہوا ہے ،اس کی تعمیر میں وہ بورڈ کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔

جناب محمد احمد صاحب نے بات چیت کے دوران کہا کہ میں ملک کے کئی فسادوں کا سروے کرچکا ہوں مگر شمال مشرقی دہلی کے 8 کلو میٹر میں پھیلا ہوا یہ تشدد اپنے اندر جتنی سفاکیت سمیٹے ہواتھا ،اس سے قبل کہیں نہیں دیکھا۔ گجرات فساد 2002 کے طرز پر عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا گیا،19 مساجد سپر آتش کردی گئیں یا بری طرح سے نقصان پہنچایا گیا۔ان مسجدوں کو اڑانے کے لئے دھماکہ خیز مادوں کا استعمال ہوا۔ان کا کہنا ہے کہ باہر سے کچھ لوگ آئے اور مسلمانوں پر تباہ کن حملے شروع کردیے۔ مسلمانوں کے مکانات اور دکانوں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیاجس سے اشارہ ملتا ہے کہ یہ منصوبہ بند حملہ تھا جس میں یکطرفہ کارروائی ہوئی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ جو لوگ خوف و دہشت کی وجہ سے جان بچا کر بھاگ گئے تھے، اب وہ اپنے جلے ہوئے مکانوں اور سامانوں کو دیکھنے کے لئے واپس آتے ہیں تو پولیس انہیں فساد ی ہونے کے الزام میں گرفتار کرلیتی ہے اور ان پر 307 جیسی سخت دفعات لگا کر گرفتار کرلیتی ہے اور ان پر تھرڈ ڈگری کا استعمال کرتی ہے۔ اطراف میں خوف و دہشت کا ماحول بنا ہوا ہے۔نوجوان سہمے ہوئے ہیں۔ہر وقت ڈر لگا رہتا ہے کہ کب پولیس آکر انہیں گرفتار کرلے۔اس یکطرفہ کارروائی نے مسلمانوں میں ناانصافی کا احساس پیدا کردیا ہے۔

جماعت اسلامی ہند کے ملی امور کے کل ہند سکریٹری جناب ملک معتصم خاں صاحب کہتے ہیں کہ اگر پولیس سنجیدگی سے اپنی ذمہ داریاں نبھاتی تو اس تباہی کوروکا جاسکتا تھا۔ اس میں پورے طور پر مسلمانوں کی نسل کشی کرنے کی کوشش کی گئی۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ پولیس ایسے مسلمانوں کو بھی گرفتار کررہی ہے جنہوں نے اپنے محلے کے مندروں کی حفاظت کی تھی۔صورت حال اتنی بھیانک ہوچکی ہے کہ اب تشدد میں زخمی ہونے والے افراد علاج کرانے سے گھبراتے ہیں کہ کہیں پولیس انہیں گرفتار نہ کرلے۔

متاثرہ علاقے میں متعدد تنظیمیں اپنے اپنے طور پر کام کررہی ہیں۔البتہ جماعت اسلامی ہند راحت رسانی کے کام میں ” ایس بی ایف ‘ (Society for Bright Future )اور قانونی تعاون دینے کے لئے ’اے پی سی آر ‘ ( Association for Protection of Civil Rights) کے اشتراک سے متاثرین کو مدد پہنچا رہی ہے۔ جماعت نے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم تیار کی اور 1500-2000 زخمیوں کا علاج کرایا،جو مریض زیادہ زخمی تھے اور انہیں فوری طور پر اسپتال میں بھرتی کرانے کی ضرورت تھی، ایسے 19 مریضوں کو ’الشفا ‘ اسپتال میں منتقل کیا اور وہاں اپنی نگرانی میں ان کا علاج کروایا۔عیدگاہ میں 1500 پناہ گزینوں میں کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ کپڑے، بچوں کے نیپکن تک کا بندوبست کیا۔جن کی ایف آئی آر درج نہیں ہورہی تھی ،وکلاءکے ذریعہ ان کی ایف آئی آر درج کروائی گئی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×