احوال وطن

دہلی فسادات کی ہائی کورٹ کے سیٹنگ جج کے ذریعہ اعلی سطحی جانچ ہونی چاہیے

نئی دہلی: 28؍فروری (ذرائع) شمال مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات کنٹرول میں آجانے کے بعد سول سوسائٹی کی طرف سے پریس کلب آف انڈیا میں پریس کانفرنس منعقد کی گئی جس میں میں دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان، سابق ممبر پارلیمنٹ شاہد صدیقی، جمعیۃ علماء ہند کے سکریٹری نیاز احمد فاروقی کے علاوہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے ممبرکمال فاروقی اور کئی افراد و سماجی کارکن دانشور شامل تھے ان تمام کی جانب سے تحقیقات کو لے کر سوال اٹھائے گئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ دہلی میں فساد کے پیچھے مبینہ سازش ہے‘ شمال مشرقی دہلی میں فسادات کے معاملے کی تحقیقات ہائی کورٹ کے کسی سیٹنگ جج کے ذریعے کرائی جانی چاہیے۔

اس موقع پر دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے بڑا سوال اٹھاتے ہوئےکہاکہ شہریت قانون کےخلاف ملک بھر میں پُر امن احتجاج ہورہے تھے، لیکن اسی درمیان ایک لیڈرکے ذریعے ان احتجاج کےخلاف اشتعال انگیزی کی گئی اور ایک ڈی سی پی کے سامنےکہا گیا کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دورے کے بعد وہ نہیں رکیں گے، لیکن امریکی صدر کے دورے کے خاتمے تک بھی انتظار نہیں کیا گیا اور پوری دنیا میں ہندوستان کی شبیہ خراب کر دی گئی اور ہندوستان کو بد نام کردیا گیا۔’ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے سوال اٹھاتے ہوئےکہا دہلی میں بڑے بڑے ادارے ہیں۔ قومی حقوق انسانی کمیشن کے علاوہ خواتین کمیشن، اطفال کمیشن جیسے ادارے ہیں، لیکن کسی نے بھی اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ دہلی اقلیتی کمیشن اپنا کام کر رہا ہے اور پیرکےدن اس کی ٹیم متاثرہ علاقے کا دورہ کرےگی۔ انہوں نےکہا کہ جن افسران کو جانچ کی ذمہ داری دی گئی ہے، ان کی اہلیت پرکوئی سوال نہیں، لیکن وہ دوسروں کےاشاروں پرکام کرتے رہےہیں۔ ایک آفیسرکو جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ہوئے تشدد کی تحقیقات کی ذمہ داری دی گئی تھی، لیکن اس میں اب تک کچھ نہیں ہوا ہے۔ اسی طرح سے الیکشن کمیشن نےانتخابات کے دوران ایک افسرکو ٹھیک سے کام نہ کرنےکی وجہ سے ہٹا دیا تھا۔ کمال فاروقی نےکہا کہ شہریت قانون کے خلاف پورے ملک میں چل رہے احتجاج کو ختم کرانےکی سازش کی گئی ہے۔
سابق ممبر پارلیمنٹ شاہد صدیقی نے سوال اٹھایا کہ دہلی میں فسادات کے درمیان تقریباً 300 افراد زخمی ہوئے ہیں جبکہ 20 سے 25 ہزار گھروں کو نذرآتش کردیا گیا ہے۔ ایسے میں صرف طاہرحسین کی جانچ کی جارہی ہے۔ میں طاہرحسین کا دفاع نہیں کرتا، اگر وہ گنہگار ہے تو ان کو سزا ملے، لیکن ان کے معاملےکے ذریعہ دوسرےگنہگاروں کو بچانےکی کوشش نہیں کی جانی چاہئے، جنہوں نے اعلان یا اشتعال انگیزی کی اورگولی مارو کےنعرے دیے‌۔ سوال یہ بھی ہے کہ جس طریقے سے چیزیں سامنے آرہی ہیں کہ ان کے گھرپراینٹ پتھر اوربوتلیں پائی گئی ہیں جن میں پٹرول تھا یہتو اپنے تحفظ کےلئے بھی لوگ کرتے ہیں۔ کہا جارہا ہےکہ ان کےگھر میں بڑے ہتھیار برآمد ہوئے ہیں، وہ ہتھیار کہاں ہیں، اگر پتھر اور بوتلیں ہتھیارہیں تو مجھے بہت ڈرلگتا ہے۔ جو کچھ آپ کر رہے ہیں اس کو پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ شاہد صدیقی نےکہا انہیں نہیں لگتا کہ دہلی پولس اس معاملے میں درست تحقیقات کر سکےگی۔

جمعیۃ علماء ہند کے سیکریٹری نیاز احمد فاروقی نےکہا شواہد اور زندہ ثبوت موجود ہیں ہمیں ان افسران پر اس لئے بھروسہ نہیں کیونکہ جی ٹی بی اسپتال میں زخمی موجود ہیں ان کے بیان لیے جانے چاہیے اسی طرح سے مرنے والوں کی لاشیں ہیں ان کو گن لیا جائے معلوم ہو جائے گا کون ظالم ہے اور کون مظلوم ہےسوال یہ ہے کی کئی دنوں سے لوگ اپنے لوگوں کی لاش لینے کے لیے انتظار کر رہے ہیں لیکن انکوائری آفیسر نہیں آرہے ہیں جس کی وجہ سےپوسٹ مارٹم نہیں ہو پا رہا ہے تاہم بڑا سوال یہ ہے انکوائری آفیسر کیوں نہیں آرہے ہیں کیا انکے ڈی سی پی نے انہیں حکم دیا ہے۔

غور طلب ہےکہ دہلی پولیس کی کرائم برانچ کے تحت بنائی گئی ایس آئی ٹی ٹیموں میں سے ایک کے چیف ڈی ایس پی جوائے ٹرکی ہیں جبکہ دوسری ٹیم کی قیادت ڈی ایس پی راجیش دیو کررہے ہیں۔ یہ دونوں افسران  جامعہ اورجے این یو تشدد معاملوں کی بھی جانچ کر رہے ہیں، جن میں اب تک کچھ بھی خاص نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے۔ الیکشن کمیشن نے پچھلے مہینے راجیش دیو کے خلاف سختی برتتے ہوئےانہیں دہلی اسمبلی انتخاب کی ڈیوٹی سے ہٹا دیا تھا۔ دراصل راجیش دیو نےدعویٰ کیا تھا کہ شاہین باغ میں گولی چلانے والا نوجوان عام آدمی پارٹی سےجڑا ہے۔ اس پرالیکشن کمیشن نے راجیش دیو کو وارننگ دیتے ہوئے نوٹس جاری کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ سیاسی بیان دینےکی وجہ سے پارٹی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×