زرعی قوانین واپس نہ لینے کے فیصلے کے بعد ایک اور کسان نے کی خودکُشی
نئی دہلی: 23؍جنوری (عصرحاضر) مرکزی حکومت کی جانب سے دیڑھ سال تک زرعی قوانین کو ملتوی کرنے کی تجویز کو مسترد کرنے کے بعد وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے صاف کہہ دیا کہ حکومت کی جانب سے یہ بہترین آفر تھا اگر اس کو قبول نہ کیا جائے تو ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہے اور نہ ہی ہم قوانین کو واپس لینے والے ہیں۔ ایک طرف مرکزی حکومت کا واپس نہ لینے کا فیصلہ اور دوسری طرف واپس لینے کے مطالبہ پر مصر کسانوں کا مظاہرہ پوری دنیا میں توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ حکومت کی اس ضد سے مایوس کسانوں کی خودکشی کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ آج ایک بار پھر سنگھو بارڈر پر ایک کسان نے اپنی زندگی کو ختم کر دیا اور یہ پیغام دے دیا کہ وہ اپنی جان تو دے سکتے ہیں لیکن بغیر قانون واپسی کے گھر واپسی نہیں کریں گے۔ میڈیا ذرائع سے موصولہ اطلاعات کے مطابق 23 جنوری کی صبح سنگھو بارڈر پر 75 سالہ کسان رتن سنگھ نے خودکشی کر لی، اور یہ کسان تحریک کے دوران دہلی بارڈرس پر ہونے والی اب تک پانچویں خودکشی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ رتن سنگھ کا تعلق امرتسر سے تھا اور وہ پنجاب کی کسان مزدور سنگھر سمیتی کے رکن بھی تھے۔ ان کی موت کی خبر سے دہلی بارڈر پر موجود مظاہرین میں تو غم و غصے کی لہر دیکھنے کو ملی ہے، جب خودکشی کی اطلاع مہلوک کسان کے گاؤں کوٹلی ڈھولے شاہ پہنچی تو وہاں ماتم کا سماں دیکھنے کو ملا۔ رتن سنگھ کئی دنوں سے سنگھو بارڈر پر موجود تھے اور انھوں نے ضعیفی کے باوجود بغیر قانون واپسی کے گھر جانے سے انکار کر دیا تھا۔ واضح رہے کہ رتن سنگھ سے قبل امرندر سنگھ سے نے بھی سنگھو بارڈر پر ہی سلفاس کھا کر خودکشی کر لی تھی۔ علاوہ ازیں غازی پور بارڈر پر کسان کشمیر سنگھ نے پھانسی لگا کر خودکشی کی تھی اور امرجیت سنگھ نے ٹیکری بارڈر پر زہر کھا کر زرعی قوانین کے خلاف ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے اپنی جان دے دی تھی۔ دہلی بارڈر پر سب سے پہلی خودکشی کا معاملہ 16 دسمبر کو سامنے آیا تھا جب کنڈلی بارڈر پر بابا سنت بابا رام سنگھ نے گولی مار کر خود کو ہلاک کر لیا تھا۔ سَنت بابا رام سنگھ نے جو خودکشی نوٹ لکھا تھا اس میں بتایا تھا کہ وہ کسانوں کی تکلیف دیکھ نہیں پا رہے ہیں اور اس لیے اپنی جان قربان کر رہے ہیں۔