زرعی قوانین پر مرکزی حکومت کی دیڑھ سال تک ملتوی کرنے کی تجویز کو کسان تنظیموں نے کیا خارج
نئی دہلی: 21؍جنوری (عصرحاضر) کسان تنظیموں اور مرکزی حکومت کے وزراء کے مابین دسویں دور کی مشاورت کے دوران حکومت نے نئے زرعی قوانین کو دیڑھ سال تک ملتوی کرنے کی تجویز پیش کی تھی جس پر فیصلے کے لیے کسان تنظیموں نے غور و خوض کے لیے دو دن کا وقت طلب کیا تھا۔ آج دیر شام کسان تنظیموں نے مرکزی حکومت کی تجویز کو خارج کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ مودی حکومت کے لیے زبردست جھٹکا تصور کیا جا رہا ہے کیونکہ مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر اس بات کو لے کر پرامید تھے کہ کسان تنظیمیں مثبت فیصلہ لیں گی۔ سنیوکت کسان مورچہ نے کسان تنظیموں کی ہوئی میٹنگ کے بعد دیر شام بیان جاری کیا جس میں کہا کہ تینوں زرعی قوانین پوری طرح سے رد کیے جانے چاہییں۔ سنیوکت کسان مورچہ کے ذریعہ حکومت کی طرف سے پیش کردہ تجویز کو خارج کرتے ہوئے تینوں قوانین کو رد کرنے کے ساتھ ساتھ ایم ایس پی پر قانون بنانے کے مطالبہ کو بھی دہرایا گیا۔ ساتھ ہی کسان مورچہ نے اعلان بھی کر دیا کہ 26 جنوری کو رِنگ روڈ پر ہی ٹریکٹر پریڈ کریں گے۔
سنیوکت کسان مورچہ کے اس اعلان کے بعد مودی حکومت کے لیے پریشانیاں کھڑی ہو گئی ہیں۔ اب دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ 22 جنوری یعنی کل ہونے والی میٹنگ میں کیا ماحول رہے گا۔ چونکہ مودی حکومت ایسا مان کر چل رہی تھی کہ ایک سے ڈیڑھ سال کی عارضی روک پر کسان رضامند ہو جائیں گے اور پھر ایک کمیٹی بنا کر قوانین کی خامیوں اور فوائد کا جائزہ لیا جائے گا۔ حکومت نے کہا تھا کہ اس کمیٹی میں کسانوں کی طرف سے پیش کردہ نام بھی شامل کیے جائیں گے تاکہ دونوں فریقین کے درمیان کھل کر بات چیت ہو سکے۔ لیکن کسانوں کے ذریعہ تجویز کو مسترد کیے جانے سے ایک بار پھر سب کچھ ’صفر‘ ہو گیا ہے۔
آج سنیوکت کسان مورچہ کی ہوئی میٹنگ کے بعد کسان لیڈر جوگیندر اگراہن نے میڈیا کے سامنے اپنی بات رکھی اور انھوں نے بھی واضح لفظوں میں کہہ دیا کہ حکومت کی تجویز ناقابل منظور ہے۔ جوگیندر اگراہن نے کہا کہ ’’ہم لوگوں نے فیصلہ کیا ہے کہ جب تک قوانین رد نہیں ہوتے، ہم حکومت کی کوئی بھی تجویز قبول نہیں کریں گے۔ کل جو میٹنگ (حکومت کے ساتھ) ہونے والی ہے اس میں بھی ہمارا یہی مطالبہ ہوگا کہ قانون واپس ہو اور ایم ایس پی کو قانونی شکل دی جائے۔‘‘
واضح رہے کہ دہلی کی سرحدوں پر کسان گزشتہ 57 دنوں سے قانون واپسی کو لے کر مظاہرہ کر رہے ہیں اور اس درمیان 100 سے بھی زائد کسانوں کی موت ہو گئی ہے۔ کچھ کی موت سرد موسم میں طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے ہوئی ہے تو کچھ نے خودکشی جیسا قدم بھی اٹھایا ہے۔ خودکشی کرنے والے بیشتر افراد نے خودکشی نوٹ میں اس کے لیے مودی حکومت کو ذمہ داری ٹھہرایا۔ اس طرح کے واقعات سے کسانوں میں غصہ کی لہر مزید بڑھی ہوئی ہے اور وہ ہر حال میں قانون کی واپسی چاہتے ہیں۔ کسان لیڈروں نے کئی بار اپنے بیانات میں اس کا تذکرہ بھی کیا ہے کہ وہ اپنے شہید کسان بھائیوں کی قربانی کو ضائع نہیں ہونے دیں گے۔