احوال وطن

بابری مسجد مسئلہ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ سمجھ سے بالا تر

دیوبند 9؍ نومبر (رضوان سلمانی) بابری مسجد مسئلہ پر آج سپریم کورٹ کے فیصلہ آنے کے بعد عالمی شہرت یافتہ ادارہ دارالعلوم دیوبند نے حیرت کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ مسجد کے اتنے ثبوت ہونے کے بعد بھی عدالت کا یہ فیصلہ پوری طرح سمجھ میں نہیں آرہا ہے ، ساتھ ہی دارالعلوم دیوبند نے ملک کے مسلمانوں کو امن وامان قائم رکھنے کی اپیل کی ہے ۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے کہا کہ بابری مسجد کے سلسلہ میں سپریم کورٹ کا جو فیصلہ آیا ہے وہ بے حد حیرت انگیز اور سمجھ سے پرے ہے ۔ اس قدر صاف ثبوتوں کے باوجود یہ فیصلہ عقل میں آنے والا نہیں ہے دوسری بات یہ ہے کہ مقدمہ متنازعہ زمین پر مالکانہ حق کو لے کر تھا اور عدالت نے یہ صاف نہیں کیا کہ زمین کا مالک کون ہے۔ انہوںنے کہا کہ جہاں تک مسجد کا تعلق ہے تو ہمیشہ سے ہمارا یہی رخ رہا ہے کہ مسجد اللہ کی ملکیت ہے اور مسلمان مسجد کی زمین کا مالک نہیںہوتا، جس جگہ ایک بار مسجد تعمیر ہوگئی وہ مسجد ہی رہتی ہے ، وہ مسجد کی حیثیت کو کسی طرح ختم نہیں کیا جاسکتا ۔ مفتی ابوالقاسم نعمانی نے کہا کہ جہاں تک فیصلے کو قبول کرنے یا نہ کرنے کا سوال ہے تو اس کا فیصلہ معاملے کے فریق کریں گے اور یہ بھی وہ ہی طے کریں گے کہ اس میں آگے کیا قدم اٹھانا ہے ۔ مولانا نعمانی نے ملک کے مسلمانوں سے امن قائم رکھنے کی اپیل کی اور کہا کہ امن وامان ہر حال میں باقی رکھنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ مسلمان نہ کوئی خود ایسی حرکت کریں جو تنازعہ کا سبب بنیں اور کسی کے بہکاوے میں آکر کوئی غلط قدم اٹھائیں۔ عالمی روحانی تحریک کے سرپرست مولانا حسن الہاشمی نے کہا کہ بابری مسجد رام جنم بھومی تنازعہ میں سپریم کورٹ کا فیصلہ مایوس کرنے والا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بابری مسجد کے بدلے ایودھیا میں دی جانے والی پانچ ایکڑ زمین کو ملک کا مسلمان قبول نہیں کرے گا ۔ مولانا حسن الہاشمی نے کہا کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے یہ مقدمہ پوری طاقت کے ساتھ لڑا اورسبھی ضروری ثبوت پیش کئے۔ عدالت کے فیصلے کے بعد ہم پوری طرح سے بورڈ کے ساتھ ہیں، اس معاملے میں بورڈ جو بھی اگلا قدم اٹھائے گا ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ یوپی رابطہ کمیٹی کے سکریٹری ڈاکٹر عبید اقبال عاصم نے کہا کہ ایودھیا معاملے پر عدالت کے فیصلے کی ہم عزت کرتے ہیں لیکن عدالت کا فیصلہ واضح نہیں ہے ، جس سے بہت سے سارے سوال باقی رہ گئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے یہ تسلیم کیا ہے کہ بارہویں صدی میں مذکورہ مقام پر کوئی عمارت نہیں تھی اس سے صاف ہوجاتا ہے کہ بابری مسجد کی تعمیر کسی عمارت کے اوپر نہیں کی گئی ہے ۔ انہو ںنے کہا کہ آثار قدیمہ کی رپورٹ میں بھی مذکورہ مقام پر مندر ہونے کی بات نہیں کہی گئی ہے ایسے میں کورٹ کا یہ فیصلہ حیران کردینے والا ہے ۔ دیوبند کے سینئر وکیل نسیم انصاری ایڈوکیٹ نے اس فیصلے پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کے قانون میں ساری زمین مذہبی استعمال کے لئے الاٹ کرنے کا پروویژن نہیں ہے اور نہ ہی کسی سرکاری زمین کے اوپر مسجد کی تعمیر کی جاسکے اور موجودہ تنازعہ حق ملکیت کاتھا ، اس کے بدلے میں دوسری جگہ لینے کا نہیں تھا ایسے میں مسلم فریق کو مسجد کے لئے پانچ ایکڑ زمین دئیے جانے والا فیصلہ کا عمل پیرا ہونا ممکن نہیں ہے۔

Related Articles

2 Comments

Waseeq کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×