لاک ڈاؤن کے سخت حالات میں بینک کی انٹرسٹ رقم کیا کریں؟ دارالعلوم دیوبند کا فتوی
دیوبند: 5؍مئی (سمیر چودھری) دارالعلوم دیوبند کے شعبہ دارالافتاء سے کٹک کے باشندہ محمد اسامہ نے بینک کی جانب سے دئے جانے والے سود کی رقم کو موجودہ معاشی بدتر صورتحال کے مد نظر خرچ کئے جانے کے جواز میں معلوم کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کی مسجد کے بینک اکاؤنٹ میں سود کی ایک بڑی رقم جمع ہے۔ موجودہ حالات میں جبکہ یومیہ کمانے والا غریب طبقہ انتہائی پریشان ہے اور اس کے پاس کھانے پینے کے لئے کچھ نہیں ہے، ایسی صورت میں اگر اراکین مسجد سود کی اس رقم کو ضرورتمندوں میں تقسیم کرنا چاہیں تو کیا وہ ایسا کرسکتے ہیں؟ جس کے جواب میں دارالعلوم دیوبند کے مفتیان کرام نے شرعی جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ بینک میں جمع شدہ رقم پر حسب ضابطہ انٹرسٹ کے نام سے جو سود دیا جاتا ہے وہ شریعت کی نظر میں حرام وہ ناجائز اور گندہ مال ہے۔ اس کا ذاتی استعمال یا مسجد میں اس کا استعمال ہرگز درست نہیں ہے، بلکہ ایسے حرام مال کا مصرف یہ ہے کہ بغیر ثواب کی نیت سے اس رقم کو غریب محتاج اور تنگ دست لوگوں دے دیا جائے ، لہٰذا اگر کسی مسجد کے اراکین مسجد کے بینک اکاؤنٹ میں موجود انٹرسٹ کی رقم لاک ڈاؤن کے موقع پر محتاج وتنگ دست اور پریشان حال لوگوں میں حسب ضرورت تقسیم کرنا چاہتے ہیں یا اس رقم سے انہیں راشن خرید کردینا چاہتے ہیں تو اس میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں ہے۔