احوال وطن

سی اے اے کے خلاف دیوبند بن گیا سراپا احتجاج‘ دیوبند کے عیدگاہ میدان میں خواتین کی تاریخی بھیڑ!

دیوبند،29؍ جنوری(سمیر چودھری)شہریت ترمیمی قانون کے خلاف دیوبند کے عیدگاہ میدان میں جاری خواتین کے احتجاج نے دہلی کے شاہین باغ کی صورت اختیار کرلی ہے، گزشتہ تین دن سے سخت سردی اور بارش کے باوجود مسلسل کھلے میدان میں ڈٹی خواتین کو چاروں طرف سے زبردست حمایت مل رہی اور آج بھارت بند کی کال کے سبب یہاں تاریخی بھیڑ دیکھنے کو ملی ،عیدگاہ میدان سے ہزاروں مردو خواتین نے بیک آواز سی اے اے، این آرسی اور این پی آر کو واپس لینے کی مانگ کرتے ہوئے کہاکہ جب تک یہ کالے قانون واپس نہیں ہونگے اس وقت تک ہماری تحریک بدستور جاری رہے گی۔ متحدہ خواتین کمیٹی کے زیراہتمام دیوبند کے عیدگاہ میدان میں گزشتہ تین دنوں سے سی اے اے،این آرسی اور این پی آر کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرہ چل رہاہے،خواتین عیدگاہ کے میدان میں دن رات جمع ہیں اور وہ مسلسل حکومت کو وقت نشانہ بنارہی ہے ،قابل ذکر امر یہ ہے کہ اس احتجاج میں دیوبند کے اکثرو بیشتر گھروں سے باپردہ خواتین شامل ہورہی اور اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ اس تحریک میں اپنا تعاون دے رہی ہیں،منگل کی رات اور بدھ کے روز کی بھیڑ اور خواتین کا جوش خروش دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا، سخت سردی و بارش بھی ان باہمت خواتین کے حوصلوں کو پست نہیں کرسکی،بھارت بند کا اثر بھی دیوبند میں زبردست رہا اور مسلم علاقوں میں لوگوں نے مکمل طورپر اپنی دکانیں وغیرہ بند رکھیں اور خواتین کے اس احتجاج کا حصہ بنے۔بدھ کے روز بہوجن کرانتی مورچہ کے سیکڑوں مردوخواتین نے احتجاج گاہ پہنچ کر خواتین کو اپنی حمایت دی اور کہاکہ جب تک یہ کالا قانون واپس نہیں ہوگا اس وقت تک بہوجن کرانتی مورچہ کااحتجاج بھی جاری رہے گا ،مورچہ کی خواتین ونگ کی عہدیدان رنجنالہری نے اپنے خطاب کے دوران کہاکہ موجودہ مودی حکومت ہندوستان کے لوگوں کو مذہب کے نام پر تقسیم کررہی ہے، انہوں نے کہاکہ سی اے اے آئین کے خلاف ہے،جس کے لئے سیکولر ہندوستان میں کوئی گنجائش نہیں ہے، انہوں نے کہاکہ یہ حکومت مسلم، دلت،پسماندہ اور دیگر دبے کچلے طبقات کے استحصال میں پیش پیش ہے لیکن اب ان کی یہ سازشیں کامیاب نہیں ہونگی،انہوں نے کہاکہ اس حکومت کے پاس روزگار،معیشت،مہنگائی،کسان،تعلیم، صحت جیسے بنیادی سوالات کے جواب نہیں ہیں اور یہی سبب ہے کہ وہ لوگوںکو مذہب کے نام پر تقسیم کرنا چاہتے لیکن یہاںکے عوام اب ان کی پالیسی کو سمجھ چکے ہیں ، حکومت کو اس قانون کو واپس لیناہی ہوگا ،کیونکہ یہ ملک گاندھی،ڈاکٹر امبیڈکر اور مولانا ابولکلام آزاد کے قائم کردہ راستوں پر چلے گا۔ پروگرام کی نظامت کررہی فوزیہ سرور نے کہاکہ جب تک سی اے اے واپس نہیں ہوگا اس وقت تک ہمارا احتجاجی مظاہرہ بدستور جاری رہے گا کیونکہ ہم یہاں آئین ہند کے تحفظ کے لئے بیٹھے ہیں۔ انقلابی نعروں کے ساتھ قومی پرچم ہاتھوں میں لیکر خواتین عیدگاہ کے میدان میں شدید سردی اور بارش کے باوجود ٹینٹ میں راتیں گزاررہی ہے، خواتین کی ہمتوں کو دیکھ کرلوگ رشک کررہے ہیں اور ان کی اس تحریک میں تعاون کررہے ہیں۔حالانکہ انتظامیہ مسلسل اس تحریک کو ختم کرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن باہمت خواتین اس تحریک کو طویل مدت تک چلانے کے لئے پر عزم نظر آرہی ہیں۔شہر سے مسلسل ٹولیوں میں ترنگے جھنڈوںکے ساتھ خواتین عیدگاہ میدان پہنچ رہی ہیں۔ خواتین نے قومی ترانہ اور آئین کی تمہید پڑھ کر مرکزی حکومت سے سی اے اے کو واپس لینے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہندوستانی خواتین حجاب میں بھی اپنی آواز بلند کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ میرٹھ سے آئیں محترمہ قمر جہاں نے کہاکہ حکومت وقت ملک کے مشترکہ ور ثہ اور گنگا جمنی تہذیب کو تباہ کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے لیکن ملک کے عوام حکومت کی اس منشا کو پورا نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے کہاکہ یہ قانون ہر طبقہ کو ہراساں کرنے والا ہے اسلئے ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں وہ فوری طورپر یہ قانون واپس لے۔متحدہ خواتین کمیٹی کی صدر آمنہ روشی ،عنبر ملک،نازیہ پروین، عذرا خان اور سلمہ احسن نے کہا کہ سی اے اے اور این آرسی کی وجہ سے گھروں میں پردہ میں رہنے والی خواتین کوسڑکوں پر دن رات دھرنا اور احتجاجی مظاہرہ کرنے کے لئے حکومت نے مجبور کردیا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ حکومت اکثریت کے زعم میں غلط قوانین پاس کررہی ہے لیکن عوامی اکثریت ایسے قوانین کو کبھی برداشت نہیں کریگی۔ہزاروں مردوخواتین نے انقلابی نعروں کے ساتھ حکومت کو چیلنج کیا جب تک یہ قانون واپس نہیں ہوگا ا س وقت یہ دھرنا بھی ختم نہیں ہوگا۔ خواتین کی اس تحریک کے سبب دیوبند میںچپہ چپہ پر پولیس فورس تعینات ہے، خاص طور پر عیدگاہ میدان کے اطراف، ہائیوے اور دیوبند حدودی علاقوں میں فورسس کو تعینات کیاگیا ،اتنا ہی نہیں خفیہ محکمہ او راعلیٰ افسران نہایت باریکی کے ساتھ احتجاج پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور اس دھرنے کو ختم کرنے کی تک و دو میں بھی لگے ہوئے ہیں۔

Related Articles

One Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×