احوال وطن

جامعہ کیمپس میں مولانا محمدعلی جوہر مارگ پر آرٹسٹوں نے پینٹنگ بناکر انوکھا احتجاج درج کیا

نئی دہلی۔ 2؍جنوری: (جامعہ کیمپس سے محمد علم اللہ کی رپورٹ) جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ کے شہریت ترمیمی ایکٹ، سی اے اے اور این پی آر کے خلاف احتجاج کا آج 21؍واں دن تھا، طلبہ نت نئے طریقوں سے اپنا احتجاج درج کرا رہے ہیں۔  آج جامعہ کے طلبہ نے فاشسٹ حکومت کی مخالفت میں سڑکوں پر تصویریں بناکر اپنا احتجاج درج کرایا۔جامعہ کیمپس میں آرٹسٹ وفنکار اپنے فن اور ہنر کے ذریعہ شہریت قانون کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں آرٹسٹوں نے اپنے فن کا نمونہ پیش کرتے ہوئے انوکھا احتجاج درج کرایا۔ کئی فنکاروں نے شیطان کی تصویر بنائی ہے جس میں وہ دستور کودانتوں سےکتر رہا ہے،توکچھ فنکاروں نے پتھرکی لکیرکو دکھانے کے لئے ایک پتھر بنایا ہے ، جبکہ ساتھ ہی معماردستور بھیم راؤ امبیڈکر کے  ہاتھ میں ایک ہتھوڑہ بنایا گیاہے  جس کے ذریعے وہ اس پتھر کی لکیر یعنی پتھر کو توڑ رہے ہیں۔ اسی طرح سے لوگوں کے احتجاج کو دکھانے کے لئے یہ پینٹنگز بنائی گئی ہیں ساتھ ہی این آر سی کولے کر چل رہے تنازعے میں کچھ اس طرح کی پینٹنگز بھی بنائی گئی ہیں جن میں وقت دستاویزات اور کاغذات کو کھارہا ہے۔پینٹنگ بنانے والے آرٹسٹوں کا کہنا ہے کہ وہ شہریت قانون کے خلاف اپنی آواز اٹھا رہے ہیں۔

ادھر طلبہ جامعہ نے اپنے احتجاج انوکھا بناتے ہوئے روڈ سائیڈ اسکول فار روولیوشن کے نام سے مہم شروع کی ہے یہ مہم اسکول نہ جانے والے بچوں کےلیے شروع کی گئی ہے خاص بات یہ ہے کہ یہ اسکول جامعہ ملیہ اسلامیہ کے باہر موقع احتجاج پر چلایا جارہا ہے، جس میں بچوں کو پڑھنا سکھایاجارہا ہے، یہ اپنے آپ میں ایک نیا تجربہ ہے اور آنے جانے والے زائرین کے لیے یہ موضوع بحث اور توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ وہیں دہلی پولس کی لائبریری میں کارروائی اور توڑ پھوڑ کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ کی لائبریری کے باہر طلبہ کی جانب سے مخالفت درج کرانے کےلیے ایک لائبریری چلائی جارہی ہے جسے روڈ فار روولیوشن کا نام دیاگیا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ 15؍دسمبر کو جامعہ کیمپس میں پولس کے ذریعے کی گئی کارروائی میں جامعہ کی لائبریری بھی زد میں آگئی تھی ، کھڑکیاں، شیشے، بیٹھ کر پڑھنے والی میزیں اور دیگر چیزیں توڑ پھوڑ کا نشانہ بنی تھیں۔آج کے اس احتجاج سے خطاب کرتے ہوئے فورم اگینسٹ کرپشن اینڈ ٹارچر کے صدر اندو پرکاش نے کہا کہ یہ وہی جامعہ ملیہ اسلامیہ ہے جہاں سے میں نے ۳۶ سال قبل سوشیالوجی میں پوسٹ گریجویٹ کیا تھا، مجھے خوشی ہے کہ میرے گھر کے بچے باہر نکل کر اس ناانصافی کے خلاف لڑرہے ہیں، انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم مودی اپنے عہدے کے وقار کا خیال رکھے بغیر آر ایس ایس کے کارکنان کی طرح برتائو کررہے ہیں، یہ افسوس کی بات ہے کہ انہوں نے پولس کے ذریعے کی گئی تشدد کی حمایت کی، انہوں نے کہاکہ یہ گاندھی فکر وخیالات کی صریح خلاف ورزی ہے، ہماری تنظیم نے کوشش کی ہے کہ جو لوگ تشدد کے شکار ہوئے ہیں یا جن کی جائیدادیں ضبط کیے جانے کا خطرہ ہے انہیں قانونی تعاون کریں گے۔ انہوں نے حکومت پر نشانہ سادھتے ہوئے کہاکہ ای وی ایم مشین گھوٹالے سے یہ حکومت اقتدار میں آئی ہے جو ہمیں این آر سی، اور سی اے اے سے ڈرا رہی ہے، لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ آئین کے مخالف ہے، ہم اس کی مخالفت کرتے رہیں گے۔ ملک کے ڈٹینشن سینٹر پر بولتے ہوئے انہوں نے کہاکہ بائیں بازو اور انسانی حقوق کارکنان کا ہم سے کاغذ مانگے جائیں گے کے نعرے والی مخالفت درست ہے آگے انہوں نے کہاکہ یہ حکومت ہندو وادی نہ ہوکر پونجی وادی ہے۔ نوجوان لیڈروں کی اس تحریک میں کردار پر انہوں نے کہاکہ اس مخالفت کی جان وہ نوجوان ہیں ، ہمارا ملک جن نوجوانوں کے ہاتھوں میں محفوظ ہے۔ انہوں نے کہاکہ حکومت ہندو واد کی بات کرتی ہے، ہمارے مطابق ہندو مذہب میں برابری ہونی چاہئے اگر ایسا نہیں ہے تو یہ ہندوواد بیکار ہے، انہوں نے کہاکہ آئین کو مذہب کے مطابق نہیں چلای اجاسکتا ، حکومت کو ذہنی بیمار بتاتے ہوئے کہا کہ حکومت کو آئین کی طاقت کا اندازہ جلد ہی ہوجائے گا۔ اس سے قبل بدھ کو جامعہ کے طلبہ گاندھی گیری پر اتر آئے اور اپنے مطالبات کو لے کر بھوک ہڑتال پر بیٹھ گئے ہیں۔ ان کا مطالبہ سی اے اے اور این آر سی، این پی آر کو واپس لیاجا ئے، پورے ملک میں جہاں جہاں بھی لوگوں کی شہادتیں ہوئی ہیں اس کی تحقیقات کی جائے، سبھی گرفتار مظاہرین کو رہا کیاجائے جو تشدد میں شامل نہیں تھے، تمام ایف آئی آر کو واپس لیاجائے جو پرامن مظاہرین کے خلاف ہوئی ہیں، ان سبھی لوگوں کو فوری طور پر معاوضہ دیاجائے جو تشدد کے شکار ہوئے ہیں وغیرہ شامل ہیں۔ قبل ازیں گزشتہ روز مشہور فلمی اداکارہ سورا بھاسکر اور دیگر معزز شخصیات نے مظاہرین کو خطاب کیا تھا او ر ملک وآئین بچانے کی لڑائی میں ہرممکن مدد کی یقین دہانی کرائی تھی۔ اس موقع پر سورا بھاسکر کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کورآڈی نیٹر کمیٹی کی جانب سے کتاب پیش کی گئی تھی۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×