سیاسی و سماجی

سالِ نو کی آمد؛ جشن کس بات کا؟

نئے سال کی آمد کو لوگ ایک جشن کے طور پر مناتے ہیں ۔ یہ ایک سال کو الوداع کہہ کر دوسرے سال کو استقبال کرنے کا موقع ہوتا ہے ۔ یہ زندگی میں وہ لمحات ہوتے ہیں جب انسان زندگی کے گزرنے اور فنا کی طرف بڑھنے کے احساس کو بھول کر ایک لمحاتی سرشاری میں محو ہوجاتا ہے جس میں وہ تمام اخلاقی اقدار کو پامال کرتے ہوئے آخری حدوں سے گزر جانے میں ذرا سا تامل محسوس نہیں کرتے جن بیہودہ حرکات و سکنات کی وجہ سے کبھی مسلمان اہل مغرب کو شرم و عار دلاتے تھے اب وہ خود اس بے حیائی کی دوڑ میں زیادہ سے زیادہ آگے بڑھنے کو مضطرب ہے نہ اس وقت قرآنی تعلیمات انہیں یاد رہتی اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت نہ اسراف سے بچنے کی فکر اور نہ ہی ضیاع وقت پر شرمندگی جب کہ وقت ایک قیمتی بیش بہا نعمت ہے یہ ایک ایسی نعمت ہے جو ایک مرتبہ گزر جائے دوبارہ واپس آنا ممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے گزرتے ہوئے ایام تو ہمیں غفلت کے بجائے اپنی غلطیوں کی اصلاح کا موقع دیتے ہیں، دُنیا بھر میں نئے سال کے جشن بہت سے مختلف طریقوں سے منائے جاتے ہیں ان جشنوں کی شروعات کے بارے میں دی ورلڈ بُک انسائیکلوپیڈیا میں یوں بیان کِیا گیا ہے:
 ”سن ۴۶ قبلِ مسیح میں رومی قیصر جولیس نے یکم جنوری کو سال کا پہلا دن ٹھہرایا، اس لیے جنوری کے مہینے کا نام جانس دیوتا کے نام پر رکھا گیا اس دیوتا کے دو چہرے تھے، ایک چہرے کا رُخ آگے کی طرف اور دوسرے کا پیچھے کی طرف تھا۔“ اس بیان سے پتا چلتا ہے کہ نئے سال کے جشن اصل میں بُت پرستی سے تعلق رکھتے ہیں
اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے بہت سے دیگر ممالک کی طرح وطن عزیز میں بھی 31 دسمبر کی رات کو آتش بازی اور جشن مناتے ہیں، عیش و نشاط کی محفلوں اور رنگ برنگے سے نئے سال کا آغاز کرتے وقت یہ بھول ہی جاتے ہیں کہ
غافل تجھے گھڑیال دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور بیتادی
ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ دنیاوی زندگی تو فانی ہے جو گنتی کے چند سالوں پر محیط ہے جس میں ہم لامحدود خواہشات اور آرزوؤں کے جال میں ایسے جکڑتے ہیں کہ وقت مرگ ہی ہوش آتا ہے کہ
عمر دراز مانگ کر لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
اے فانی بشر!
کبھی دسمبر کے آخری دنوں میں اپنے بیتے برس کا احتساب بھی کیا ہے کہ خالقِ جہاں نے ہمیں اس سال میں  کن کن نعمتوں سے نوازا؟ اور پھر بھی کہاں کہاں اس کی حکم عدولی کا مرتکب ہوئے؟ ہمارا ہر آنے والا سال ہمیں ابدی منزل کے قریب لے جارہا ہے جہاں ہم سے ہر چیز کا حساب لیا جائے گا، اس جہانِ انتظار میں قدم قدم پر دفاتر ماہ و سال یوم و ہفت کھل جائیں گے، کتاب عمر کے ہر برس کے ورق الٹ جائیں گے تو کیا جشن سال نو کی محفلوں کے تذکرے ہمیں بچا پائیں گے، نہیں ہرگز نہیں بچا پائیں گے .
اے نئے سال بتا، تُجھ ميں نيا پن کيا ہے؟
ہر طرف خَلق نے کيوں شور مچا رکھا ہے
روشنی دن کی وہي تاروں بھري رات وہی
آج ہم کو نظر آتي ہے ہر ايک بات وہی
آسمان بدلا ہے افسوس، نا بدلی ہے زميں
ايک ہندسے کا بدلنا کوئي جدت تو نہيں
         (فیض لدھیانوی)
ہمارا گزشتہ سال تو گزر گیا جب کہ امت محمدیہ مصائب و مشکلات میں پھنسی ہوئی ہے طرح طرح کے فتنوں میں مبتلا ہے اسے بہکانے کی چیزیں عام ہیں وہ طرح طرح کے امتحانات سے دو چار ہے اور یہ سب اشیاء افراد امت سے اور ابناء اسلام سے فوری حل چاہتی ہے کہ وہ عزم صادق اور پختہ ارادہ کریں کہ انفرادی طور پر بھی ، معاشروں کی سطح پر بھی اور حکام و امراء کیا اور عوام و محکوم کیا ہر سطح پر اور ہر شخص اپنی اپنی اصلاح کرے گا اور یہ اس یقین کےساتھ کہ ہم میں سے کسی کواس بات میں کوئی شک نہیں کہ امت کی ناک میں دم کر دینے والوں ان بحرانوں اور تباہ کن حالات سے نجات کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم صاف ستھرے اور حقیقی اسلام کو لیں، وہ خالص اسلام جو قرآن کی شکل میں نازل ہوا ہے جسے پوری کائنات کے سردار نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم لے کر آئے  اور جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سمجھا تھا،
جی ہاں ! صاف ستھرا اور حقیقی اسلام وہی ہے جو ہماری زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہو ہر شعبے کے لئے تعلیمات مہیا کرتا ہے، وہ شعبۂ سیاسیات ہو یا اقتصادیات ، اس کا تعلق کلچر و ثقافت سے ہو یا اجتماعیات و معاشروں سے ، اسے زندگی کے ہر شعبہ میں اپنایا جائے صرف علمی طور پر ہی نہیں بلکہ عملی طور پر بھی ، حکمرانی و جہانبانی میں بھی اور اپنے متنازعہ امور میں ثالثی و فیصلے کروانے میں بھی اور یہ مقاصد اسلام کی معرفت کی بنیاد پر ہو کہ اسلام مفید و صالح، عالی تہذیب یافتہ، و مھذب زندگی قائم کرنا چاہتا ہے جو دنیا و آخرت میں اعلی ثمرات مہیا کرے، اور اسلام اپنے ماننے والے کو وہ اعلی زندگی مہیا کرنا چاہتا ہے جس کے بارے میں حق تعالیٰ جل مجدہ کا ارشاد صادق آتا ہے جس میں اس نے فرمایا ہے : "تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ انھیں زمین کا حاکم بنادے گا جیسا ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنا دیا تھا اور خوف کے بعد انھیں امن بخشے گا وہ میری عبادت کرینگے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں گے” ( النور : 55)
آج جبکہ امت محمدیہ مختلف راستوں کے دو راہے بلکہ کئی راستوں کے جنکشن پر کھڑی ہے اس پر واجب ہے کہ وہ اس بات کا یقین کامل اور علم یقین حاصل کر لے کہ اس کی عزت و قوت اس کے اپنے دین کے ساتھ گہرے ربط و تعلق اور اپنی شریعت پر مکمل عمل اور اپنے نبی کی اتباع سنت میں پنہاں ہے  یہی وہ کار آمد و فعال اسلحہ ہے جو امت سے تمام خطرات کو دور کر سکتا ہے اور یہی وہ زبردست آہنی لباس ہے جس کے ذریعے اس سخت آویزش اور ان تباہ کن حملوں سے بچا جا سکتا ہے
حق تعالیٰ جل مجدہ ہمیں ان تمام باتوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی شام نئی
ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی
فیض لدھیانوی
786 060 1011
930 786 1011

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×