سیاسی و سماجی

ہندوستان کے جمہوری نظام کی تشکیل :ایک تاریخی پس منظر

یہ بات بہ مثل ضیائے آفتاب اور شعاعِ ماہتاب ہرکس وناکس پر واضح اور عیاں ہے کہ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے، جس کی رعنائی وزیبائی، ہم آہنگی، باہمی اعتماد اور کثرت میں وحدت کا ماحول اس کی اعلی ترین اور نہایت ہی حسین وجمیل تہذیب وثقافت کی ترجمانی کرتی ہے، اخوت وبھائی چارگی، قومی وملی یکجہتی، آپسی میل ملاپ؛ اس ملک کی ایک خاص پہچان اور طرۂ امتیاز ہے، یہ ملک مختلف مذاہب وملل کے پیروکاروں کو اپنے اندر نہایت ہی متانت وسنجیدگی کے ساتھ سموئے ہوا ہے، تہذیبیں مختلف ہونے کے باوجود بھی ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، سب آپس میں بھائی بھائی، یہ صرف کہاوت اور افسانہ نہیں ہے؛ بل کہ حقیقت ہے، موجودہ حالات اس پر شہادت دے رہے ہیں، احتجاجوں، مظاہروں اور ریلیوں میں برابر کے شریک وسہیم بن کر جینا اس ملک کی یکجہتی کی غماز ہے۔ ظالم وجابر حکاموں کی باشندگانِ ہند اور آئین ہند سے چھیڑچھاڑ اس ملک کی روایت کا گلاگھونٹ دینے کے مترادف ہے۔ غرض! ہرسو، ہرچہار جانب ہندوستانی عوام کی آپسی رہن سہن، بود وباش اور قومی وسماجی زندگی؛ ہندوستانی عوام کی یکجہتی پر مثبت اور دیرپا نقوش ثبت کرتے ہیں، مادر وطن ایک جمہوری ملک کیوں کہا جاتا ہے؟ اس کی جمہوریت کے قیام کا پس منظر اور تاریخ کیا ہے؟
جمہوریت کی تعریف:
جاننا چاہیے کہ جمہوریت کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں، چنددرج ذیل ہیں:
(1)لوگوں کی رائے سے نظام ترتیب دینے کا نام جمہوریت ہے۔
(2)اتفاق رائے سے کام کرنے کو جمہوریت کہتے ہیں۔
(3)عوام کے لیے اور عوام کے ذریعہ سے موسوم ایسا طرز حکومت، جس میں سیاسی نمائندوں کے انتخاب سے لے کر عوام کے لیے وضع کی جانے والی پالیسیوں پر بھی عوامی خواہشات اثر انداز ہو؛ اسی کا نام جمہوریت ہے۔
(4)سولہویں امریکی صدر ابراہ لنکن نے یوں تعریف کی: ’’لوگوں کے لیے، لوگوں کے ذریعہ، لوگوں کی حکومت‘‘۔
(5)مشہور یونانی مفکر ہیروڈرٹس نے کہا: ’’ایسی حکومت جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرہ کوحاصل ہو‘‘۔(عطاء الرحمن نوری، ہندوستان کا جمہوری دستور-دنیا کا سب سے طویل آئین)
جمہوری نظام کی تشکیل پر ایک نظر:
یہ ایک جگ آشکار حقیقت ہے کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے، 15/اگست 1947ء کو یہ ملک انگریزوں کے پنجۂ استبداد سے چھٹکارا پایا تھا۔ دراصل آزادیٔ ہند سے پہلے 26/جنوری 1930ء /کو کانگریس نے انگریزوں سے آزادی طلب کی، کانگریس کے رہنمائوں نے یہ طے کیا کہ ہم ہرسال اس تاریخ میں یوم آزادی منائیںگے، تاآں کہ 15/اگست 1947/ء کو ملکِ ہندوستان آزاد ہوگیا۔ واضح رہے کہ اس وقت کانگریس کے رہنما ملکِ ہند کے بڑے جلیل القدر، قدآور شخصیات تھے، جن میں سرفہرست مولانا ابوالکلام آزادؒ کا نام ہے۔
آزادیٔ ہند کا سب سے موثر کردار اور اصل سبب یہ بنا کہ جب انگریزوں کو یورپ سے مقابلہ آرائی کے لیے فوجوں کی ضرورت پڑی، تواس وقت انھوں نے ہندوستان سے فوجوں کی مدد چاہی، ہندوستان کے رہنما مولانا ابوالکلام آزادؒ نے کہا: جب تک تم ہمیں آزاد نہ کردو، ہم تمہیں اپنی فوج نہیں دیںگے۔انگریزوں کو اشد ضرورت تھی، جس کے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں تھا، انھوں نے آزادی کا وعدہ کرلیا، جنگیں ہوتی رہیں، ملک کے رہنما علمائے کرام نے باشندگان اور برادرانِ وطن کو اپنی معیت میں لے لی۔ جنگ آزادی کا وہ شعلہ، جو شعلۂ جوالہ بن کر رہ گیا،بہ ہرکیف! ہندوستان 15/اگست 1947ء کو مکمل طور پر ایک عرصۂ دراز کے بعد آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔(دیکھیے: آزادیٔ ہند کی جدوجہد میں مسلمانوں کاحصہ، ازعبدالمنعم، مترجم: علاء الدین ندوی)
جمہوریت کا قیام-دوقومی نظریے اور فسادات کے تناظر میں:
جب ہندوستان آزاد ہوگیا، تواس وقت یعنی آزادی کے بعد اور آزادی سے پہلے بھی ہندوستانی باشندگان -ہندو مسلم- کی آپسی نوک جھونک، تنازعات، فسادات، کرپشن، خوںریزی وآبروریزی کی ندیاں بہہ گئیں۔ آزادی سے پہلے بھی یہ چیزیں پائی جاتی تھیں؛ مگر خال خال اور کہیں کہیں، ان چیزوں کو دیکھ کر اس وقت کے علمائے کرام کے ایک گروہ نے ایک نئے ملک کی تشکیل کے لیے اور ایک گروہ یہیں پر قیام کے لیے امن وامان، صلح وآشتی کے ساتھ ترجیح میں ، جسے ’’دو قومی نظریہ‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے، پہلے گروہ کے مفکرین ومدبرین کی فکر ونظر اور حکمت ودانائی سے پاکستان کا وجود ہوا، اور دوسرے نظریہ کے علمائے کرام کے نظریہ سے اتفاق کرتے ہوئے آزادی کے پندرہ دن بعد 29/اگست 1947ء کو طے کیاگیا کہ آزاد ہندوستان کا اپنا آئین بنایا جائے، جس میں اس ملک کے تمام باشندگان کے حقوق کا تحفظ بھی ہو، اور ان کی خوش حالی اور پرامن زندگی کی ضمانت بھی۔ اس دستورساز اسمبلی نے سات افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی، جس کے صدر ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر تھے، اس کمیٹی نے دوسال گیارہ مہینے اٹھارہ دن، یعنی تین سال کی مسلسل محنت وجدوجہد کے بعد ملک کا آئین تیار کیاگیا، جسے ملک کے پارلیمنٹ نے منظور کرکے نافذ کردیا۔
اس آئین کے نفاذ سے ہمارا ملک ’’جمہوری ملک‘‘ کہا جانے لگا، اور یہ26/جنوری 1950ء کوہوا تھا، اسی وجہ سے باشندگانِ ہند خصوصی طور پر 26/جنوری کو ’’یوم جمہوریہ‘‘ اور 15/اگست کو ’’یوم آزادی‘‘ مناتے اور اپنے وطن کے جھنڈے کو سلامی پیش کرتے ہیں۔(آزادی سے جمہوریت تک، مولانا ندیم الواجدی، (الہند: دارالکتاب، دیوبند، د۔ط، د۔ت)، ص108-109)
دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمارے ملک کو سلامی عطا فرمائے اور جمہوریت پر قائم ودائم رکھے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×