شخصیات

حضرت مولانا متین الحق اسامہؔ صاحب قاسمی کانپوری رحمۃ اللہ علیہ میدان خطابت کےعظیم شہسوار بھی چل بسے

کہیں سرمایہ ٔ محفل تھی میری گرم گفتاری
کہیں سب کو پریشان کر گئی میر ی کم آمیزی  ،
 *مولانا ایک ہمہ گیر شخصیت*
حضرت مولانا متین الحق اسامہ ؔ ؒ ایک ہمہ گیر  شخصیت کے حامل  تھے ، آپ ؒ کی شخصیت کی ترکیبی عناصر  آپ ؒ کا علمی ، فکری  ، اور تحریکی ہونا ہے ،آپ ؒ ہر طرح سے دین متین کی تعلیم کو عام کرنے والے ، اور لوگوں کو اسلام کی تعلیم سے بہرہ ور کرنے والے اور جمعیۃ علمائے ہند  کے پلیٹ فارم سے ہر کس و نا کس ، کس مپرسی کے عالم میں حیران وسرگرداں ، غریب ، مفلس اور کمزورو ناتوا ں لو گوں کی  امداد و تعاون کرنے والے تھے ، آپ ؒ شہر کانپور کے قاضی اور جج تھے ، آپ ؒ کئی ایک تنظیموں اور مدرسوں کے سر پرست و نگراں تھے ، آپ ؒ   علم و ادب ، اخلاق و کردار ، تواضع و انکساری ، حلم وبردباری   کے پیکر تھے ، آپ ؒ  کی خدمات بہت ہیں ،  لیکن ان خدمات میں سے جس نے بہتوں کو اور خود  راقم الحروف کو متاثر کیا ، جس کے سننے کے بعد ان گنت لوگ راہ حق کو اپنائے ، اپنے کو بدعات و خرافات سے دور رکھا ، وہ ہے آپ ؒ کی  سحر ا نگیز تقریریں ، آپ ؒ  میدان خطابت کے ایک عظیم شہسوار تھے ،
*مولانا ایک بے مثال خطیب تھے*
 مولانا ؒ ایک بہ مثال خطیب تھے ، عوام الناس نے مولانا مرحوم ؒ  جیسا کوئی  ایسا آدمی نہیں دیکھا ،جس نے وعظ و تقریر کے اسٹیج  پر بیٹھ کر لوگوں کے دلوں اور جذبات پر ،اپنے علم کی بے پناہی ،معلومات کی کثرت ، مطالعے کی وسعت ، بھر پور دماغی سرمایے ،کتاب وسنت اور ان کے سرچشمے سے نکلے ہوئے علوم پر کامل عبور ، رموز شریعت سے غیر معمولی آگاہی ، اسلامی احکام و قوانین و آداب کو پیش کرنےکے انمول اور خوش نما انداز ، نیز اپنی شیریں گفتاری ، سلا ست لسانی ، جادوبیانی ، حسن ظاہر ، سلیقہ     ٔ پوشش ، عالمانہ  وقار ، مومنانہ استحضار ، متکلمانہ سان ، صالحانہ انداز تکلم ، مناظرانہ طرز استدلال اور اپنی دھیمی ، مرتب، حکمت ریز و علم خیز موتی کی لڑی جیسی تقریر س اس طرح قابو پانے کی بھر پور صلاحی رکھتا ہو۔
*نرالاانداز خطابت*
مولانا  کی تقریریں دلچسب لطیفوں ، درس انگیز حکایات ، عبرت خیز نکا ت، ناز ک اشارات ، معنی ریز تشبیہات ، عقل کشا واقعات ، ذہن کو بیدار کرنے والے نت نئے خیالات والتفاتات اور سب سے بڑھ کر تجدید ایمان و یقین کا سامان صد ہزار رکھنے والے ایسے حقائق حیات سے ، بھری پری ہوتیں ، جس سے دل کا ہر زنگ دور ہوجاتا ، ہمت عمل پر وان چڑھتی ، کائنات میں پھیلی ہوئی خدا کی ان گنت نشانیوں پر غور کرنے کا نہ ختم ہونے والا جذبہ پیدا ہوتا اور بہت سی مرتبہ گنہ گار آنکھوں کو غسل تطہیر کا سامان میسر آجاتا اور آدمی سابقہ خطاؤں سے بالکلیہ توبہ کرلینے کی ،ایسی توفیق کے کر اٹھتا کہ آئندہ زندگی میں اپنی تقدیر ،اپنے ہاتھ سے لکھنے کی راہ پاجاتا ۔
 *افکار وخیا لات کو سامعین کے ذہنوں میں پیوست کرنے کا بے مثال انداز*
 حضرت رحمۃ اللہ علیہ ،ضرب الامثال ،کہاوتوں ،محاروں نیز زبان و بیان کے مختلف اسالیب اور لسانی ساختیات کے مختلف رویوں سے ،اپنے افکار و خیالات کو سامعین کے ذہنوں میں اتارنے میں لاجواب تھے ۔
*مولانا کی تقریر سحر انگیز ی سے پر*
  مولانا کی جادوبیانی ، شیریں مقالی، بہ وقت ضرورت مزاحیانہ انداز  ، نکتہ آفرینی ، بات سے بات پید ا کرنے کی عجیب سی قدرت ، حاضر دماغی ، طرزادا ، معلومات کا انوکھا پن ، فکری جولانی ،غیبی مدد ، تعلق مع اللہ پانی میں راہ پیدا کردینے کی کرامت ،ایسا رنگ دکھاتی کہ لوگوں کی حیرت کی صلاحیت بھی جواب دے جاتی ۔
 *مولانا کی تقریر کی لذت*
مولانا کی تقریر پر مغز ہوتی تھی جچے تلے الفاظ استعمال کرتے ، لیکن مضامین مرتب و مدلل اور لہجہ واضح اور گونج دار ہوتا ۔ اکتادینے والی طولانی اورخلل انداز ایجاز بیانی  دونوں سے ہمیشہ پرہیز کرتے ،تقریر میں حافظہ تعبیر ، الفاظ اورمضامین کی غیر معمولی معنویت : سب ہی ان کا ساتھ دیتے ۔
         غرض مولانا ؒ کا بیان جو بھی سنتا وہ عش عش کرنے لگتا ، اس کے دل کا زنگ دور ہوجاتا ، قلب وجگر روشن ومنور ہوجاتا ، مولانا وہ بیا ن جس سے راقم الحروف پر خاصہ اثر پڑا وہ  وہ بیان ہے جس میں آپ ؒ نے آپ ﷺ کی معراج کا واقعہ  بیان کیا ہے ، اور اسی طرح عظمت صحابہ ؓ  بھی ، مولانا ؒگذشتہ کل اپنے رب حقیقی سے جا ملے ، لیکن انہوں نے اپنے انمٹ نقوش چھوڑ گئے ، اللہ تعالی انہیں غریق رحمت فرمائے ، جنت میں اعلی علیین میں مقام کریم سر فراز فرمائے آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×