شخصیات
اردو شعر و سخن کے بے تاج بادشاہ : خصوصیات و امتیازات
کوئی نالا ں ، کوئی گریاں ، کوئی بسمل ہوگیا ،
اس کے اٹھتے ہی دگر گوں رنگ محفل ہوگیا
(مولانا ابوالکلام آزا د ؒ )
علم وادب ، فکر وفن ، شعر وسخن کا پیکر ،ہر محفل اور ہر مجلس کا نمایاں چہرہ ، جو علم و عمل ، حلم و بر دباری ، تواضع و انکساری اور اپنی خدادا صفات سے د مکتا تھا ، وہ جن کے شعر کا انداز نرالااور لاجواب تھا اور وہ خود لاجواب تھے ، جن کا سینہ حب الہی سے شر سار ، محبت رسول ﷺ سے لبریز تھا ، ،وہ جو اپنی شعر و سخن کی وجہ سے بین الاقومی شہرت یافتہ اور عظیم شاعر تھے ، جو اردو زبان و ادب کے بےمثال ، بےبدل اور بے نظیر خادم تھے ، وہ جو حکومت کے آنکھو ں میں اپنی آنکھیں ڈال کر شعر ہی میں باتیں کرتے تھے ، جو بے باک اور نڈر تھے ، جن کا انداز بیان بھی بے باکانہ تھا ، جو بزدلی ، کم حوصلگی ، اور کم ہمتی سےمتنفر تھے، جو اپنی موت سے پہلے یہ اشعار محفلو ں ، مجلسوں اور مشاعروں میں پڑھا کرتے تھے اور فخر محسوس کیا کرتے تھے کہ
؎دو گز سہی مگر میری یہ ملکیت تو ہے
اے موت تو نے مجھے کو زمین دار کردیا
(راحت اندوری ؒ )ؔ
اور کبھی یہ شعر گنگناتے ، اورمجلس کےشرکا ء و سامعین کے دل و دماغ کو جنھجوڑتے ، مخاطب اپنے کو بناتے اور آخرت کی فکر و یا د دہانی سب ہی کو کراتے ، آپ فرماتے
؎ یہ سا نحہ تو کسی روز گزرنے والاتھا
میں بچ بھی جاتا تو ایک روز مرنے والاتھا
افسوس آپ ؒ کل شام ۱۱ ؍ اگست ۲۰۲۰ ء علم و ادب کا یہ چراغ مدھیہ پر دیش کے اندور اسپتال میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے کی وجہ سے زیر علاج تھے ، مگر اچانک دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے اپنی جان جان آفریں کے حوالہ کردیا جنہیں ہم ،آپ اور سبھی شاعر بے مثال ڈاکٹر راحت اندروی ؔ ؒ سے جاتنے ہیں ؎ بجھ گئے کتنے شبستان محبت کے چراغ
محفلیں کتنی ہوئیں شہر خموشاں کہیے
آپ ؒ ۷۰؍ سال کی عمر پاکر اور اپنی علمی ، ادبی ، شعر و شاعری کی خدمات انجام دے کر اس دنیائے فانی سے چل بسے ، مگر آپ ؒ کی اردو زبان وادب کی خدمات اور آپ ؒ کی شعر و شاعری ہمیشہ یاد رکھے گی ، آپ نے اپنے انمٹ نقوش اور اپنے چھا پ سب پرچھوڑ گئے ،
آپ ؒ کے شعر و شاعری کی امتیازات و خصوصیات
آپ ؒ کے اشعار
آپ ؒ کے اشعار جچے تلے زبان ، عام فہم ، سلیس اور عمدہ پیرایہ میں ہوتا ، آپ ؒ کی اشعار حب الہی پر مشتمل ، دین اسلام کی خوبیوں سے لبریز ، عشق مصطفی ﷺ سے پر ، وطن عزیر کی محبت سے سر شار ہوتی تھی ، آپ ؒ حالات حاضرہ کے مطابق نہایت عمدہ اور دلچسپ شعر کہتے ، عوام الناس اور علمی و ادبی حلقوں میں داد و دہش وصول کرتے۔
آپ ؒکے اشعار گنگنانے اور سنانے کے منفرد لب و لہجہ
آپ ؒ کا ترنم اپنی جگہ منفرد تھا ، نہ تو منہ بگڑتا نہ گلے کی رگیں پھولیتیں، اگر کبھی منہ بگڑ بھی گئی ، تو وہ کھلتی ، چمکتی دمکتی نظر آتی اور دیدنی ہوتی ، آپ ؒ کوشعر پڑھنے میں نہ زور لگانا پڑتا ، آپ ؒ کے گلے میں نور تھا اور ایسا لگتا تھا کہ جیسے وہ شعر کیا پڑھ رہے ہیں ، مصر کی ڈلیاں مزے سے لے کر چبارہے ہیں ، آپ سانولے اور بے ریش تھے ، مگر آپ ؒ کے چہرے کی چمک ، دمک سبھی کو بھاتی آپ ؒ کی شکل وصورت میں ایک خاص جاذبیت تھی ،
آپ ؒ کے اشعار کے نمونے
آپ ؒکے اشعار میں سوز و گداز ، حقیقت شناسی ، استغنا ء و بے نیازی ، خود دراری وخود شناسی ، حکمت و دانائی ، حوصلہ مندی و وفاداری ، جوش جنوں و آبلہ پائی ، امید و یقین ، ، بے وفائی کا شکوہ لیکن وفا کی بے انتہا امید ، خردمندی کی عیاری اور جنون بے خطرکی سادہ لوحی کا ایک دریا پوری طرح موج ز ن نظر آتا ہے ، جو اپنی سبق آمو ز لہروں کے ذریعے قاری کے لیےزندگی کے بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی ثابت ہوتا ہے ۔
حب نبی ﷺ سے شر شار شعر
آپ ؒ کا وہ شعر جو ہر مسلمان کو بھاتا ہے ، جس میں آپ ؒ نے سیرت طیبہ ﷺ کو بیا ن کیا ہے ؎
زم زم و کوثر تسنیم نہیں لکھ سکتا
یا نبی آپ کی تعظیم نہیں لکھ سکتا
میں اگر سات سمند ر بھی نچوڑوں راحت ؔ
آپ کے نام کی ایک میم نہیں لکھ سکتا
( راحت اندوری ؔ ؒ)
وطن عزیز کے بارے میں اشعار
آپ ؒ کو وطن عزیز سے بہت ہی پیار تھا ،یوں تو سبھی لوگوں کو اپنی وطن عزیز سے محبت و الفت ہے ، باستثنائے بعض شر پسند عناصر جنہیں وطن عزیز سے محبت نہیں ہے ، جو وطن عزیز میں فرقہ وارنہ فسادارت مچاتے ہیں ، اور وطنی یکجہتی ، بھائی چارگی اور اخوت و محبت کو پاش پاش کرنا چاہتے ہیں ، جو مسلمانوں کو وطن عزیز سے نکال باہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،مسلمانوں کو دہشت گر د گردانتے ہیں ، اور مسلمانو ں کو غدار وطن گر ادنتے ہیں ، ان کے چہرے پر ایک طمانچہ ہیں انہیں چاہیے کہ قوم مسلم کے صرف ایک فرد فرید ، راحت اندوری ؔ ؒ کے اس شعر کو پڑھے ، راحت اندوری ؔ ؒ کے دل و دماغ اور قوم مسلم کے قلب و جگر میں وطن کی کتنی عظمت اور اس کی محبت ہے اسے چھوڑیں صرف اور صرف راحت اندوری ؔ ؒ کے اس شعر سے مسلمانو ں کا ہندوستان سے محبت کے بارے میں پ اندازہ کریں ،اور ڈاکٹر راحت اندوری اور قوم مسلم کا وطن عزیز سے محبت کا نظا رہ دیکھیں اور اپنی زہر افشانی بند کریں ، راحت اندوری ؔ ؒ فرماتے ہیں ،
اے وطن عزیز تیری خاک میں کھوجائیں گے ،سوجائیں گے؎
مر کے بھی رشتہ نہیں ٹوٹے گا ہندوستان سے ایمان سے
(راحت اندوری ؒ )ؔ
ایک اور شعر ملک عریز سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہو ئے یوں گویا ہیں
میں جب مرجاؤ ں تو میری الگ پہچان لکھ دینا
لہو سے میری پیشانی پہ ہندوستان لکھ دینا
(راحت اندوری ؒ )ؔ
راحتؒ کا پیغام باشندگان ہند کے نام : یکجہتی ،اخوت و بھائی چارگی کا قیام
آپ ؒ کو وطن عزیز سے کس قدرمحبت تھا ،آپ ؒ نے ملاحظہ فرمایا ، اب راحت اندوری ؒ کا وطن عزیز کے وطنی یکجہتی اور ہند و مسلم کی اتحاد و بھائی چارگی کے قائم رکھنے پر یہ اشعار بھی پڑھیں ؎
سب کی پگڑی کو ہواؤں میں اچھالا جائے
سوچتا ہوں کہ کوئی اخبار نکالا جائے
پی کے جو مست ہیں ا ن سے توکوئی خوف نہیں
پی کے جو ہوش میں ہیں انہیں سنبھالا جائے
آسماں ہی نہیں ایک چاند بھی رہتا ہے یہا ں
بھول کر بھی کبھی پتھر نہ اچھالا جائے
(راحت اندوری ؒ ؔ )
سی اے اے ، این آر سی کے خلاف احتجاج شاہین باغ میں پڑھے گئے آپ کے اشعار
آپ ؒ حکومت کے آنکھوں میں آنکھیں ملا کر بے باکانہ اور شاعرانہ انداز میں بات کرتے تھے ، یہ ہی وہ اشعار ہے ، جس نے آپ ؒ کو ملک و بیرون ملک میں مشہور و معروف کردیا ، ان اشعار کو آپ ؒ نے ۶؍ ماہ قبل دہلی کے شاہین باغ میں ہورے سی اے اے ، ین آرسی ، اور این پی آر کے خلاف ہور ہے احتجاج میں شرکت اپنے مخصوص شعر و شاعری کے انداز میں اپنا احتجاج درج کرایا ، آپ ؒ احتجاج میں شریک ہوئے اور کہا کہ :
‘‘جہاں جمہوریت نہیں وہاں میں جشن جمہور یت منانے آیا ہوں ’’
اور پھر اس کے بعد آپ نے اپنے مشہور اشعار کو یوں گن گنایا ،
؎ ہماری سر کی پھٹی ٹوپیوں پر طنز نے کر
یہ ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں ،
( راحت اندوری ؔ ؒ )
اس شعر میں آپ ؒ نے شر پسند لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ ہم مسلمان ہیں ، اور ہمارا مسلمان ہونا جرم نہیں ہے ، لہذا ہمارے کپڑے ، لباس و پوشاک ، ٹوپی ،رومال دیکھ کر نہ طنز کسو اور نہ ہی برا بھلا کہو ، اور نہ ہی تم اس بات کے حق دار کو تم ہمیں اس ملک عزیز سے نکال سکو ، اگر تم ہمارے ( مسلما نوں ) کے دستاویز دیکھنا چاہتے ہو ، تو ( ہمارے دور حکومت کے تعمیر شدہ ) عجائب گھروں ، تاج محل ، لال قلعہ ، اورقطب مینار کو دیکھو ، یہ تمام حال وقال سے کہہ رہی ہیں کہ مسلمانو ں کا ہندوستان سے ایک گہر ا ربط و تعلق ہے ، تمہاری تعصب انگیز ذہنیت ہمیں شہر بد رکرنے پر ابھار رہی ہے ، حالاں کہ ایسا ہر گز ممکن نہیں ،
آپ ؒ کے معروف و مشہور اشعار
جس شعر پر ہر مجلس میں آپ کی خوب پذیرائی ہوئی وہ یہ ہیں :
اگر خلاف ہیں ، ہونے دو ، جان تھوڑی ہے
یہ سب دھواں ہے ، کوئی آسمان تھوڑی ہے
لگے گی آگ تو آئیں گے مکان کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمار مکان تھوڑی ہے
میں جانتا ہو ں کہ دشمن بھی کم نہیں لیکن
ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے
جو آج صاحب مسند ہیں ، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں ، ذاتی مکان تھوڑی ہے
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے ،
( راحت اندوری مرحوم ؒ )
آپ ؒ جب اس شعر کے اخیرمصرعہ پر پہونچتے ‘‘ کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے ’’ تو مجمع میں عجیب سے سماں چھا ہے ، اور محفل ومجلس میں تالیاں بجنے لگتی ، جو ش وولولہ کا ایک سماں نمایا ں ہونے لگتا ، اور مجلس کی ایک طرح عجیب و غریب کیفیت ہوتی جو دیدنی ہوتی ،
یہ تھی ڈاکٹر راحت اندوری ؒ کی شاعری اور ان کی خوبیاں ، جسے آج ہر کس و ناکس ہندو مسلم ، سکھ ، عیسائی ، سب خوب مزے لے کر گنگانے رہے ہیں اور ڈاکٹر و شاعر راحت اندوری ؒ کی مغفرت کی دعائیں کر رہے ہیں ، اللہ تعالی آپ ؒ کی مغفر ت فرمائے اور جنت میں مقام کریم نصیب فرماے آمین