سیاسی و سماجی
آزادئ ہند میں مسلمانوں کی ناقابل فراموش قربانیاں ! !
آزادی ہند کے لیے مسلمانوں کی قربانیوں کاایک لامتناہی سلسلہ ہے ، اس حوالے سے،حق گواور حق نویس مورخ کہتا اورلکھتاہے کہ تقریبا پچپن لاکھ سے لیکر پچھتر ہزار تک مسلمانوں نے، علماء کرام نے،مدارس والوں نےآزادی ہند کےلیے اپنی جان کی قربانیاں پیش کی ہیں ،مگر افسوس کہ آج ہندوستان کے ہندو برادرمسلمانوں ہی سے وفاداری اور ہندوستانی ہونے کی سرٹیفکیٹ اورثبوت مانگتےہیں ،اس میں جتنی غلطیاں ہندؤں کی ہیں ،اس سے کہیں زائد میں مسلمانوں کی غلطیاں سمجھتاہوں،کہ آج مسلمان میدان میں لکڑی کاڈنڈا لیکر دورلگانےوالےکا ریکارڈر بطورفخر ذہنوں اوردل ودماغ میں محفوظ کرنے لگےہیں، فلم میں گانے اورناچنےوالوں کی ایک ایک اداؤں کویادکرکے مشق وتمرین کرنےلگےہیں؛ مگر افسوس کہ مسلمانوں نے اپنے دین ومذہب کی بنیادی اورضروری چیزوں سے آشناتودور اس کی ادنی خبر تک بھی نہیں رکھتے ہیں اور علم تاریخ خصوصا””تاریخ ہند”” سےتو اتنی دوری اختیار کرلی ہے ،کہ جتنی دوری ارض وسما کے مابین ہے ،اس لیے انہیں ہرمحاذ میں پسپائی وشکست سے دوچارہوناپررہاہے-
ہندوستان کے اندر ساڑھے آٹھ سوسال تک مسلمانوں نےحکومت کی ،انگریز””ایسٹ انڈیا "”کمپنی کے نام پر تجارت وبزنس کےنام پر گجرات وصورت کےاندرکارخانوں کوقائم کیااورہندوستان کے چپے چپے کے اندراس کی شاخوں کوقائم کرلیا،انگریز جب اپنے کاروبار کومضبوط و مستحکم کرلیااور یہاں طاقت وقوت اس کی بن گئی ،تورفتہ رفتہ اپنی قوت اور غلبہ کی بنیاد پر چند مقامات پراپناقبضہ جمانے لگا،اس کے لیے سفید فام سیاہ دل غاصبوں نے ایک پالیسی اور حربہ یہ اختیار کیا کہ نوابوں کوآپس میں لڑایاجائےاور پالیسی کیاجائے؛چنانچہ انہوں نوابوں کواکسایااور برانگیخہ کیا کہ تمہارے پاس نہ قوت وطاقت کی کمی ہے ،نہ ہی مال اور پیسوں کی کمی ہے ،تم لاکھوں، کروڑوں، اربوں کھربوں روپیوں کے مالک ہوکر غیروں کی ماتحتی میں زندگی بسر کررہےہو،اس سے کہیں بہتر ہے کہ تم کسی خطے اور ریاست کے مالک ہوجاؤ ،اس طرح تمہاری خوب عزت بھی ہوگی اور حکومت بھی رہے گی ،اس طرح انہوں نے نوابوں کے دل ودماغ میں نفرت کوپیداکیا اور آپسی اخوت و بھائی چارگی کو ختم کرکے دلوں کوبانٹااورآپس میں لڑایا؛چناں چہ جب ایسٹ انڈیا کمپنی مضبوط ہوگئی، توگجرات کی ساحل پر ،کلکتہ کی ساحلی اوربڑے بڑے علاقوں پر جب انہوں نے اپناقبضہ جمانا چاہا،توہمارے جووالی ونواب اورحکمران تھے ،انہوں اپنے ملک کے تحفظ وسلامتی کےلیے بدبخت انگریزںسےچند لڑائیاں لڑیں، یہ لڑائیاں آزادی کے لیے لڑائیاں نہیں تھی؛ بل کہ یہ لڑائیاں اپنی حکومت، سلطنت اور سطوت کوبرقراررکھنے کے لیے تھیں –
جب حیدر علی رحمة الله عليه نے یہ محسوس کیاکہ انگریز مسلم حکمرانوں، نوابوں کوآپس میں لڑاکر، کچھ جگہوں پرقبضہ کرلیاہےاور آہستہ آہستہ ان کی قوت کوکمزور کرکے پورے ملک پر اپناقبضہ جماناچاہتاہے، توانہوں نے ان سے لڑائیاں لڑیں، بدقسمتی سے ان کی شکست ہوگئی ،تو ان کے فرزند ارجمند محترم جناب ٹیپوسلطان علیہ الرحمہ نے اپنے والدمحترم کی جدوجہد آزادی کوآگے بڑھانے کاعزم مصمم کرلیااور سب سے پہلے انگریزوں سےآزادی کی جنگ ولڑائی حضرت ٹیپوسلطان علیہ الرحمہ نے لڑی،بدقسمتی سے ان کو بھی اپنے مارآستین میرجعفر کے بنگال میں تحریک آزادی کوناکام بنانے اور میرصادق کے حضرت ٹیپوسلطان علیہ الرحمہ کی تحریک آزادی کےاندرنفاق کاعمل کرنے کی وجہ سے حضرت ٹیپوسلطان علیہ الرحمہ کوجام شہادت نوش کرناپڑا اور شہادت کے بعدانگریزکمانڈرانچیف نے آپ کے جسد مبارک پر کھڑے ہوکر یہ اعلان کیاکہ آج سے ہندوستان ہماراملک ہوگیااور اس پرہماری حکومت قائم ہوگئی ،شہادت سے قبل انگریزوں نے آپ کویہ آفراوراختیار بھی دیاتھا کہ ابھی بھی وقت ہے کہ آپ تحریک آزادی سے باز آجائیں ،ہم آپ کوکسی خطے اور ریاست کامالک اور بادشاہ بنادیں گے اپنی آل واولاد کے ساتھ بخوشی زندگی بسر کریں؛چنان چہ جوابا حضرت ٹیپوسلطان علیہ الرحہ نے فرمایا:کہ ائے انگریز کان کھول کر سن لے کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سوسالہ زندگی سے ہزارہابہتر ہے، حضرت نے جام شہادت نوش کرنے کوترجیح دیااورآزادی وطن کےلیے اپنی جان کی قربانی پیش کردی ،حضرت کے شہید ہو جانے کے بعد انگریز نےجب آپ کے جسم پرکھڑے ہوکر یہ اعلان کیا کہ آج سے ملک ہمارا ہے ،اور نعرہ لگایا کہ خلق خدا کا،ملک بادشاہ کا،اورحکم ایسٹ انڈیا کمپنی کا،دلی تک یہ صدا جب گئی ،دلی کی ایوانوں سے یہ صداٹکرائی اور جس وقت یہ آواز حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے فرزند ارجمند حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ کے کانوں تک پہنچی، توحضرت نے فورا یہ فتوی صادر کردیا کہ مسلمانوں آج سے یہ ہندوستان غلام ملک ہوگیاہے؛ اس لیے جو قرآن، حدیث، اللہ اور نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم پرایمان رکھتے ہیں، ان پر انگریزوں سے جہاد کرنالازم اورضروری ہوگیاہے-
اس فتوے کی خبر ہندوستان کےکونے کونے اورچپے چپے میں پہنچ گئی اورجب اس فتوے کی خبرانگریزوں کی ایوانوں سے ٹکرائی تواس کےایوانوں میں ایک تہلکہ ،شور وغوغااورزلزلہ بپاہوگیا؛چنانچہ دہلی کےاندرایک عالیشان مدرسہ تھااسےاورپورے ہندوستان میں ہزاروں مدارس کے پھیلے ہوئےجالوں کوانگریزوں نےایک ہی لمحے کےاندربارود کے ڈھیڑپراڑادیا،جوطلبہ اس حملے سے بچے ہوئے تھے، انہیں بھی زہردیکرموت کے دہانے اتاردیاگیا،اسی موقعہ سےکمبختوں نے حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمة الله عليه کوبھی شہید کردیا-
آپ کے شہادت کے بعد آپ کےخاندان سے اسماعیل شہید رحمة الله عليه اورآپ کےشاگرد سید احمد شہید رحمة الله عليه نے اس تحریک آزادی کی جدوجہد کوآگےبڑھایا،اولا انہوں نے نوابوں کےدلوں کوجھنجھوڑااورانہیں اس تحریک کےاندرشامل کرناچاہا؛مگراس وقت کےنوابوں نےآپ کےاس پکار کےہاں میں ہاں نہ ملاکر،کھلےلفظوں میں انکار کردیا،توان دونوں حضرات نے مدارس کے طلبہ کواپنےساتھ لیااور ملک کے کونے کونے سے انہوں نےتحریک آزادی کے لیےمسلمانوں سےمال اور اوراولادکی چندہ مانگنے لگے،اسی دوران یہ لوگ بنارس کےقریب ایک غازی آباد کاعلاقہ تھا،جہاں ایک ارب پتی شخص تھے،جن کانام فرزند علی تھا، ان سے ملاقات کےلیے پہنچے،تواس وقت انہوں نےانہیں ایک لاکھ روپے بھی چندے میں دیے،اورمزید ایک اولاد بھی عطاکیا اورجب ملک کےکونے کونےسےمسلمانوں کوجنگ آزادی کےلیےتیارکرلیا،تب جاکر،انگریزوں سےجنگ آزادی لڑی،اتفاق سے یہاں بھی انہیں اپنے آستین کےسانپ افغان پٹھانوں کےذریعہ شکست ہوئی اور یہ دونوں حضرات بھی ملک کی آزادی کی خاطر شہید ہوگئے –
ان شہداء کے بعد،حضرت شیخ الہند علیہ الرحمہ،حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی علیہ الرحمہ،حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة الله عليه، حضرت مولاناحاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمة الله عليه، حضرت مولاناابوالکلام آزاد علیہ الرحمہ ،حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمة الله عليه اور حضرت مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی علیہ الرحمہ اوردیگر بڑے بڑے علماء کرام نے تحریک آزادی کی کمان کوسنبھالا،پھرلوگوں کوانگریزوں کےخلاف اکسایا،بھڑکایااوران کی نفرت عوام کے دلوں میں پیدا کیا،اور کہاکہ انگریزجتنا باہر سےسفید ہےاس سے،کہیں زیادہ اس کا باطن سیاہ ہے؛بل کہ اس کاباطن توپاخانے سےبھی بدترہے،نیزاگران کی حکومت قائم ہوگئی توپھرکن کن نقصانات سےلوگوں کودوچار ہوناپڑےگا،ان سےبھی روشناس کرایا ؛چنانچہ ہندوستان سےانگریزوں کونکال باہر کرنےکےلیے””ریشمی رومال "”کی تحریک چلائی گئی،اس موقعے پر بھی منافقوں، انگریزوں کےکتوں نے،اس تحریک کابھانڈاپھوردیا،توانگریزوں نے حضرت شیخ الہند علیہ الرحمہ کو””مالٹا””کےجیل میں قیدکردیااوراس قید خانے کےاندرانگریز روزانہ عشاء کی نمازکےبعدحضرت شیخ الہند علیہ الرحمہ کےکمرے میں آتااورآگ کےانگاروں پر آپ کو لٹادیتا،کہتاائےشیخ الہند تم صرف یہ کہدو کہ انگریزہماراوفادارہے،جیل سےرہائی کےبعدمیں انگریز کےخلاف کسی تحریک میں شامل نہیں ہوں گا،حضرت کوجب کچھ افاقہ ہوتاتوکہتے انگریز خبیث،کمینے ،مردود کالےمن والے تم میراجان تولےسکتاہے؛مگرمیرےایمان کاسوداہرگزنہیں کرسکتاہے-
جب حضرت جیل سے رہاہوئے توآپ کی خدمت میں انگریز کاایک نمائندہ میاں سرعبدالرحیم حاضرہوا، اور سلام وکلام کے بعد کہنے لگا کہ حضرت آپ نےآزادی ہند کی خاطر "”مسند حدیث "”کوچھوڑدیاہم اس میں یتیم ہوگئے””خانقاہ کو چھوڑ دیا اس میں بھی یتیم ہوگئے اورآپ کوجیل کابھی راستہ دیکھناپڑا؛اس لیے آپ سےآخری گزارش یہی ہے کہ آپ اب انگریزوں کےخلاف کچھ نہ کہیں، اور انگریز بھی یہی چاہتاہے کہ آپ خاموشی سے اپناکام جاری رکھیں،حضرت شیخ الہند علیہ الرحمہ نے فرمایاکہ میاں سرعبدالرحیم آپ کی بات اب تو ختم ہوگئی ،توفرمایاکہ ہاں میری بات ختم ہوگئی ،توحضرت نےفرمایاجاؤ اپنے بڑوں کوکہدینا کہ مالٹا کےبرفیلے علاقے میں رہ کر میراجسم توٹوٹ گیاہے؛لیکن میرے روح کے اندر پہلے سے بھی سوگنا زائد طاقت وقوت بڑھ گئی ہے ،اورانگریز یہ چاہتاہے کہ میں اس کے خلاف تحریک کوبند کردوں ،میں اس کی حکومت میں جیناتودرکنار میں مرنابھی پسند نہیں کرتا ہوں ،یہ ہےشیخ الہند علیہ الرحمہ کی جرأت وبےباکی یہ ہے ان کاعظیم وبلند حوصلہ کہ حضرت نے آزادی وطن کی خاطر ہرمصیبت کوبطیب خاطر قبول کیا؛مگراپنی تحریک سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے-
صادق پور کےاندر عید کے دن ،جب مسلمان مردوعورت نئے نئے جوڑے زیب تن کررہے تھے،گھروں کےاندرخوش ذائقے کھانےتیارکیے جارہےتھے،اس دن بھی ملعون انگریزوں کومسلماں پرذرہ برابربھی ترس اوررحم نہیں آیااوربلڈوزر لیکرمسلمانوں کےمکانوں کومنہدم ومسمار کردیا،جس میں ہزاروں بچے،نوجوان مردوعورتوں اوربوڑھوں کوجام شہادت نوش کرناپڑا-
انگریز مورخ لکھتا ہے کہ آزادی ہند کے لیے مسلمانوں نے ناقابل بیان قربانیاں پیش کی ہیں، لال قلعہ سے لےکر شاہ جہانی مسجد تک کوئی بھی ایک ایسادرخت نہیں تھا،جومسلمانوں کی لاشوں سےخالی ہو،یہ جو آج کل یوم آزادی کے موقع پر مہاتماگاندھی،جواہر لعل نہرو،سبھاش چندر بوس اوردیگر چند ہندؤں کےنام لے کر یوم آزادی منالیتے ہیں ،عصبیت کی بنیاد پرمسلمان مجاہدین کے نام نہیں لیتے ہیں، مسلمانوں کی قربانیوں کوبالکل فراش کردیا گیاہے،آج جن کے یہ نام لیواہیں، ان کانام اگردوسوسال تک بھی علاءالدین کاچراغ لیکر ڈھونڈاخائے ،پھر بھی کہیں اس کانام نہیں ملےگا-
آج ہم سے تم وفاداری اور ہندوستانی ہونے کی سرٹیفکیٹ مانگتے ہو اور ہمیں جبرا غیر ملکی قراردینے کی ناپاک سازشیں رچتےہوذرابھی اگرتم نےآزادی ہند کی تاریخ نظروں سےگذارلیے ہوتے، توشاید تم مسلمانوں کے ساتھ یہ ناقابل بیان حرکات کرنے سے گریز کرتے-