احوال وطن

بابری مسجد ٹائٹل سوٹ؛ بعض ہندو گواہوں کے مطابق انھیں کوئی نقش دکھائی نہیں دیتا: ڈاکٹر راجیو دھون

نئی دہلی: 17؍ستمبر 2019ء (پریس ریلیز) آج بھی مسلم پرسنل اور جمعیۃ علماء کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون نے سوٹ نمبر5 پر اپنی بحث جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جو پریکٹس ہے یعنی پوجا اس میں تسلسل ہونا چاہیے اور اس کی وجہ بھی سامنے آنی چاہیے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے۔ مثال کے طور پر انہوں نے کیلاش پروت کو پیش کیا اور کہا کہ یہان ہر سال برف سے بھگوان کی شبیہ بن جاتی ہے۔ لیکن یہان ایسا کچھ نہیں ہے۔ دوسری مثال ڈاکٹر دھون نے جنم آشٹمی کی دی اور کہا کہ ہر سال کرشن کے جنم دن کو منایا جاتا ہے لیکن اس سے وہ Juristic person نہیں بن جاتا۔ انہوں نے آگے کہا کہ عقیدہ کا بھی کوئی تسلسل ہونا چاہیے اور اس کا بھی کوئی واضح عمل ہونا چاہیے۔ یہ نہیں کبھی بیرونی سیاح نے اور کبھی کسی دوسرے بیرونی سیاح نے کچھ کہہ دیا۔ اگر کسی نے یہ کہہ دیا کہ یہا ں کے ہندوؤں کا یہ عقیدہ ہے تو کیا اس کو مان لیا جائے گا۔
اس موقعہ پر جسٹس چندر چوڑ نے ڈاکٹر دھون سے سوال کیا کہ اگر جنم استھان کو Juristic person مان لیا جائے تو اس کے نتائج کیا ہوں گے اور اگر نہ مانا جائے تو کیا ہوں گے۔ اس پر ڈاکٹر دھون نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر جنم بھومی کو jurisdictional person مان لیا جائے تو قبضہ مخالفانہ اور limitations دونوں لاگو ہوجائیں گے۔
اس کے بعددھون صاحب نے شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین کے اس دعوے کا جواب دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ مسجد شیعوں کی ہے اور ہم اسے ہندو فریق کو دیتے ہیں۔ ڈاکٹر دھون نے کہا کہ موصوف کے خلاف کئی ایف آئی آر ہیں شاید یہی ان کو اس کے لئے مجبور کررہی ہیں۔ اس کے بعد انہوں اس سوٹ میں پیش ہوئے کئی شیعہ گواہوں کے بیانات پڑھ کر سنائے۔ اس میں ایک شیعہ متولی جواد حسین کا جواب دعوی تھا جو سوٹ نمبر5 میں داخل کیا گیا تھا۔ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ بابری مسجد اللہ کی ملکیت ہے اور یہ وقف کی پراپرٹی ہے اور یہان برابر نماز ہوتی رہی ہے اس وجہ سے نیاز کا دعوی ناقابل اعتبار ہے۔22 دسمبر کی رات میں ان لوگوں نے چوری چھپے مسجد میں مورتیان رکھ دیں اس سے ان کا مسجد پر حق نہیں بن جاتا ہے۔
اس کے بعد ڈاکٹر راجیو دھون نے کورٹ کو بتایا کہ ایودھیا میں بابری مسجد کے علاوہ تین اور مندر ایسے ہیں جن کے بارے میں رام جنم استھان ہونے کا دعوی کیا جاتا ہے۔
اس کے بعد انہوں نے ایک شیعہ رہنما پرنس انجم قدر کا کورٹ میں دیا ہوا جواب پڑھا۔ انہوں نے اپنے جواب میں کہا تھا کہ کہ یہ لوگ 22دسمبر کے بعد سے یہ کہنے لگے ہیں کہ یہی جگہ رام جنم بھومی ہے حالانکہ اس قبل وہ رام چبوترے کو جو باہری صحن میں تھا اس کو رام جنم بھومی مانتے تھے۔ اس کے بعد ڈاکٹر دھون نے کورٹ کو بتایا کہ جو اصلا رام جنم بھومی مندر ہے وہ بابری مسجد کے سامنے کا راستہ پار کرکے ہے اور ہمیشہ سے اسے ہی رام جنم بھومی مندر مانا جاتا تھا۔ دراصل یہ جھگڑا اور تنازعہ انگریز حکمرانوں کا پیدا کردہ ہے جو لڑاؤ اور حکومت کرو کے فارمولہ پر کام کرتے تھے۔ اس کے بعد ڈاکٹر دھون نے علامہ اقبال کا ایک شعر پڑھا جس میں رام کو امام الہند کہاگیاہے۔

ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو نازاہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند اپنی بحث کے آخر میں ڈاکٹر دھون نے کہا کہ اگر یہ لوگ حقائق اور ثبوتوں سے یہ ثابت کردیں کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر بنائی گئی تو ہم از خود اس سےُدستبردار ہوجائیں گے اس لئے کہ اسلامی شریعت میں کسی زمیں پر غاصبانہ قبضہ کرکے مسجد بنانے کی اجازت نہیں ہے۔
اس کے بعد ڈاکٹر دھون نے آل انڈیا شیعہ کانفرنس کے سیکریٹری کا جواب دعوی پڑھ کر سنایا کہ یہ جگہ ہمیشہ سے رہی ہے ۔ اس بعد دھون صاحب نے فتاوی عالمگیری سے ایک اقتباس پڑھ کر سنایا کہ اگر کوئی مسلمان کسی کی زمیں پر زبردستی قبضہ کرکے مسجد بنائے تو اس مسجد میں نماز پڑھنا شریعت کے خلاف ہوگا۔ اس کے انہوں نے ہندو فریقوں کے اس دعوے کو بھی رد کیا کہ اگر کسی کے باہری صحن کے چبوترے پر مورتیان رکھی ہوں اور وہان پوجا ہورہی ہو تو اس سے مسجد کا تقدس پامال ہوجاتا ہے اور وہان نماز نہیں ہوسکتی۔ ڈاکٹر دھون نے کہا کہ اس سے مسجد کا تقدس پامال نہیں ہوتا۔ اس کے بعد انہوں نے فریق مخالف کی اس بات کا جواب دیا کہ اس مسجد میں مینار نہیں ہیں اور یہان وضو گاہ نہیں ہے اس لئے یہ مسجد نہیں ہے۔ ڈاکٹر دھون نے کہا کہ مسجد کے لئے مینار کا نہ ہونا یا وضو گاہ کی عدم موجودگی مسجد کی حیثیت کو ختم نہیں کرتی۔
پھر ڈاکٹر راجیو دھون نے مسجد کے میناروں مورتیو ں کے نقش کے بارے میں کہا کہ بعض ہندو گواہوں نے کہا کہ انھیں کوئی نقش دکھائی نہیں دیتا ۔ الہ آباد ھائی کورٹ کے دو فاضل ججوں جسٹس اگروال اور جسٹس ایس یو خان نے اپنے فیصلہ میں کہا ہے کہ نقش تو ہیں لیکن اس سے مسجد کی حیثیت متاثر نہیں ہوتی۔
پھر ڈاکٹر دھون نے ان  چار تاریخ دانوں کی رپورٹ پیش کی جو وزیر اعظم نرسمہا تاؤ نے تیار کروائی تھی جس میں کہا گیا ہے کہ تاریخ میں ایسا کوئی واضح ثبوت نہیں ہے کہ کسی مندر کو توڑ کر مسجد تعمیر کی گئی تھی۔
آج کی بحث کے دوران ڈاکٹر دھون کے علاوہ مسلم پرسنل بورڈ کی سینئر ایڈوکیٹ میناکشی اروڑہ اور بورڈ کے سیکریٹری سینئر ایڈوکیٹ ظفر یاب جیلانی بھی موجود تھے ۔ اسی طرح بورڈ کے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ کے طور پر ایڈوکیٹ شکیل احمد سید، ایڈوکیٹ ایم آر شمشاد، ایڈوکیٹ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ ارشاد احمد اور ایڈوکیٹ فضیل احمد ایوبی بھی موجود رہے ان کے علاوہ ان کے جونیئر وکلاء بھی موجود تھے۔

Related Articles

One Comment

Shafi ahmed کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×