احوال وطن

مجلس عاملہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا اجلاس کئی اہم فیصلوں کے ساتھ اختتام پذیر

لکھنؤ: 28؍مارچ (پریس ریلیز) آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ کی ایک اہم میٹنگ ۲۷؍مارچ ۲۰۲۲ء روز اتوار کو حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم کی صدارت میں منعقد ہوئی، اس نشست میں کئی اہم امورپر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کئی اہم فیصلے کئے گئے۔ اس اجلاس کی کارروائی جنرل سکریٹری بورڈ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے چلائی۔ آپ نے افتتاحی کلمات میں بورڈ کے ستائیسویں اجلاس کانپور سے ابتک کی سرگرمیوں کا خلاصہ پیش کیا، اس کے بعد حجاب کے تعلق سے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلہ پر مجلس عاملہ میں تفصیل سے اظہار خیال ہوا۔ مجلس عاملہ کا احساس تھا کہ اڈوپی اسکول کی طالبات کے حجاب کے مسئلہ پر کورٹ کا فیصلہ نہ صرف یہ کہ دستور ہند کی دفعہ 15 ( یعنی مذہب، نسل، جنس، ذات اور جائے پیدائش کی بنیاد پر تفریق و امتیاز کی نفی) کے خلاف ہے بلکہ دستور کی دفعہ 14, 19, 21 اور 25 کے بھی خلاف ہے۔ ملک کا دستور ملک کے ہر شہری کو اپنی شناخت اور وقار کے ساتھ جینے کاحق اور شخصی آزادی کا اختیار دیتا ہے۔ عاملہ کا احساس ہے کہ یہ فیصلہ نہ صرف شخصی آزادی کے منافی ہے بلکہ مذہبی وثقافتی آزادی کے حق کو بھی سلب کرتا ہے۔

ارکان مجلس عاملہ نے اس بات پر بھی گہری تشویش ظاہر کی کہ یہ فیصلہ مسلم طالبات کی تعلیم کے حق کو بھی متأثر کرے گا۔ اس فیصلہ نے مسلم طالبات کے سامنے یہ سوال بھی کھڑا کردیا ہے کہ وہ تعلیم اور حجاب میں سے کس کو ترجیح دیں۔ گو کہ اس فیصلہ کا تعلق اڈوپی ( کرناٹک ) اسکول کی طالبات کے شخصی حق اور مذہبی آزادی سے متعلق تھا۔ تاہم اب اسے کرناٹک کے تمام اسکولوں، جونیئر کالجوں اور بور ڈکے امتحانات تک وسیع کردیا گیا جو انتہائی قابل مذمت اور شرمناک ہے۔

مجلس عاملہ کااحساس ہے کہ ہائی کورٹ نے شخصی آزادی کے حق پر بات کرتے ہوئے یہ فیصلہ بھی دے دیا کہ حجاب اسلام کا لازمی جزء نہیں ہے۔ مجلس عاملہ نے اس پر اپنی شدید تشویش کااظہار کرتےہوئے یہ کہا کہ ” کیا اب عدالتیں یہ بھی طے کریں گی کہ کس مذہب میں کونسی چیز لازمی ہے اور کونسی چیز لازمی نہیں” ، مجلس عاملہ اس تعلق سے یہ واضح کردینا ضروری سمجھتی ہے کہ کس مذہب میں کو نسی چیز لازمی ہے اور کونسی نہیں، یہ طے کرنے کا اختیار عدالتوں کو نہیں بلکہ اس مذہب کے علما اور اسکالرز کو ہے۔ اسی طرح دستور ہند کی روشنی میں ہر شخص کو یہ طے کرنے کا حق بھی ہے کہ اس کے مذہب نے اس کے لئے کونسی چیز لازمی کی ہے اور کونسی نہیں۔ بورڈ کی مجلس عاملہ کو اس پر بھی شدید اعتراض اور تشویش ہے کہ اب عدالتیں مقدس مذہبی کتابوں کی بھی من مانی تشریح کرنے لگی ہیں حالانکہ اس کا نہ انھیں اختیار ہے اور نہ ہی وہ اس کی اہل ہیں۔ کرناٹک ہائی کورٹ کے اس فیصلہ نے اس بات کا بھی اندیشہ پیدا کردیا ہے کہ آئندہ دیگر مذہبی طبقات کی مذہبی پہچان جیسے پگڑی، صلیب اور بندی وغیرہ پر بھی پابندےلگادی جائے۔

مجلس عاملہ نے بورڈ کے ذریعہ ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کی پرزور تائید کی اور اس پر بھی اطمینان کا اظہار کیا کہ بورڈ کی یہ پٹیشن دو خواتین ارکان کی طرف سے داخل کی گئی اور ایک پٹیشن خود بورڈ کی طرف سے داخل کی گئی ہے۔ مجلس عاملہ نے کرناٹک حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے تک مسلم طالبات کو حجاب کے ساتھ اسکول میں آنے اور امتحان دینے سے نہ روکاجائے۔

آل انڈیامسلم پرسنل لا بور ڈ کی مجلس عاملہ نے یونیفارم سول کو ڈ کا مسودہ تیارکرنے کے لئے اتراکھنڈ ریاستی اسمبلی کے ذریعہ ایکسپرٹ کمیٹی کے قیام کو بے وقت کی راگنی اور غیر دستوری عمل قراردیا۔ عاملہ کا احساس ہے کہ بھارت جیسے کثیر مذہبی و کثیر تہذیبی ملک میں یکساں سول کو ڈ کا مطالبہ کرنا دراصل مذہبی آزادی کے بنیادی حق پر تیشہ چلانے کے مترادف ہے۔ بھارت کے دستور نے ناگا لینڈ اور میزو رم کے ناگا اور کوکی قبائلیوں کو یہ تیقن دیا ہے کہ بھارت کی پارلیمنٹ کوئی ایسا قانون نہیں بنائے گی جو ان کی مذہبی و سماجی عادات اور رواجی قوانین کو منسوخ کردے۔ ( دفعہ 371A اور 371G )

مجلس عاملہ کا احساس ہے کہ یونیفارم سول کوڈ دراصل اقلیتوں کی مذہبی و ثقافتی شناخت کو ختم کرنے کی جانب پہلا قدم ہے۔ مجلس عاملہ محسوس کرتی ہے کہ درا صل یہ ہندتوا کے اس بڑے ایجنڈے کا بنیادی حصہ ہے جس کے ذریعہ وہ ملک میں موجود الگ الگ مذہبی و ثقافتی اکائیوں کوجبراً اکثریت کے مذہب و ثقافت میں ضم کردینا چاہتی ہیں۔ مجلس عاملہ کااحساس ہے کہ کثرت میں وحدت ہی بھارت کی اصل طاقت اور پہچان ہے اور اس کو ختم کرنے کی بالواسطہ یا براہ راست ہر کوشش ملک میں انتشار اور بد امنی کو ہی ہوا دے گی۔ مجلس عاملہ کا احساس ہے کہ یہ ایک خطرناک رجحان ہے اور ملک کے تمام انصاف پسند لوگوں اور مذہبی اکائیوں کو اس کی شدت سے مخالفت کرنی چاہیے۔

مجلس عاملہ نے یہ طے کیاکہ بورڈ کی تمام کمیٹیوں کی کاکردگی کو بہتر بنانے اور ملکی سطح پر اسکی خدمات کو عام کرنے اور عوام تک بورڈ کا تعارف کرانے نیز تفہیم شریعت، دارالقضا اور اصلاح معاشرہ جیسی کمیٹیوں کو وسعت دینے پر تبادلہ خیال کے بعد اہم فیصلے کئے گئے وہیں یہ بھی طے کیا گیا کہ بورڈ کی ہر کمیٹی میں ارکان خواتین میں سے بھی خواتین کو شامل کیا جائے، سوشل میڈیا ڈیسک کی ابتک کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسکو مزید مفید بنانے پر غور کیاگیااور مناسب فیصلہ کیاگیا۔

  •  اجلاس میں مجلس عاملہ کے درج ذیل ارکان نے شرکت فرمائی اور مباحث میں بھرپور شرکت کی۔ بور ڈ کے نائب صدور حضرت مولانا سید ارشد مدنی، مولانا ڈاکٹر علی محمد نقوی، امیر جماعت اسلامی جناب سید سعادت اللہ حسینی، بور ڈ کے سکریٹریز مولانا محمد فضل الرحیم مجددی، مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی، خازن بورڈ جناب پروفیسر ریاض عمر نیز امیر شریعت کرناٹک مولانا صغیر احمدرشادی، مولانا عتیق احمد بستوی، جناب یوسف حاتم مچھالا، ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس، ایڈوکیٹ ایم آر شمشاد،ایڈوکیٹ حافظ رشیداحمد چودھری، مولانا سید بلال عبدالحی حسنی ندوی، مولانا انیس الرحمن قاسمی، مولانا یسین علی عثمانی، جناب ڈاکٹر ظہیرآئی قاضی، مولانا خالدرشید فرنگی محلی، مولانا مفتی احمد دیولا، مفتی محمد عبیداللہ اسعدی، مولانا عبد العلیم قاسمی بھٹکلی، مولانا محمد یوسف علی، جناب طاہر ایم حکیم ایڈوکیٹ، جناب کمال فاروقی، الحاج جناب عارف مسعود، مولانا محمدسفیان قاسمی، محترمہ پروفیسر مونسہ بشریٰ عابدی، محترمہ ڈاکٹر اسماء زہرا، محترمہ عطیہ صدیقہ، محترمہ نگہت پروین خانغیرہ۔ حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی صاحب کے اختتامی کلمات اور دعا پر میٹنگ کا اختتام ہوا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×