شخصیات

آہ! ولئ وقت

 آئے عشّاق۔۔۔۔۔۔۔۔ گئے وعدۂ فردا لےکر
 اب اُنھیں ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر
ِشہر نظام آباد کے مقبولِ عوام و خواص بزرگ عالمِ دین میرے محسن و مشفق، ولی وقت حضرت مولانا سید ولی اللہ قاسمی صاحب رحمہ اللہ کا بہت ہی مختصر سی علالت کے بعد بروز جمعہ بوقت ٨:٢٠ منٹ شب سرکاری دواخانہ نظام آباد سے بغرضِ علاج حیدرآباد منتقلی کی کوششوں کے درمیان انتقال ہوگیا اور روح ہمیشہ کے لیے قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
یہ خوش نصیبی نہیں تو کیا ہے کہ اپنی مٹی لگی ٹھکانے
وہ سر جو تھا بار دوش عامر،کسی کے قدموں پہ وار آئے
       حضرت مولانا جامع کمالات و محاسن کے حامل مسلکِ دیوبند کے عظیم ترجمان اور اکابرینِ امت و قائدینِ جمعیۃ کے معتمد علیہ، فعال روشن ضمیر،اہلِ نظر،صاحبِ بصیرت و صاحبِ نسبت عالمِ دین تھے جن کی مخلصانہ خدمات کا دائرہ ہر میدانِ عمل کو محیط تھا۔
وہ بیباک عالم تھے تو بے داغ ملی قائد بھی
 زینتِ محراب و منبرتھے تو رونقِ محفل بھی
صاحبِ درس و تدریس تھے تو ماہر رجال ساز بھی
       شہر وضلع نظام آباد کے علاوہ اطراف کے اضلاع میں بھی اکثریت ان باکردار علماء کی ہے جنہوں نے آپ کے بِناء کردہ چشمۂ فیضان ادارہ مظہر العلوم سے اپنے علم اور فکر وعمل کی سیرابی کا سامان فراہم کیا ہے۔
مئے توحید کو لیکر صفتِ جام پھرے
    شہر نظام آباد واطراف کے ضلعوں میں شاید ہی کوئی دینی جلسہ یا کوئی متحدہ پلیٹ فارم سے انجام دی جانے والی تحریک ایسی ہوتی جس کے مولانا روح رواں،یا صدر نشیں نہ ہوتے،
ہمارے علاقے میں عوامی و ملی کام کرنے والے علماء میں شاید ہی کوئی ایسا ہے جس نے آپ کے مشفقانہ و رہنمایانہ مشوروں سے فائدہ نہ اٹھایا ہو،
       جمعیۃ کے پلیٹ فارم سے آپ نے وہ سب کارہائے نمایاں احسن طریقہ پرانجام دئے جو قیامِ جمعیۃ کےمقاصد میں شامل تھے اور آج وہ ضلعی وریاستی جمعیۃ کی تاریخ میں روشن باب بن کر درج ہوچکے ہیں.
 مجھ سے ادا ھوا ہے جگر جستجو کا حق
۔۔۔۔۔۔۔۔ہر ذرہ کو گواہ کئے جارہا ہوں میں
سازِ خاموش ہیں فریاد سے معمور ہیں ہم
         مولانا نے شہر کی مشہور مسجد مکہ مسجد میں 32 سال امامت کے فرائض انجام دیئے، جہاں ایک مدت تک مولانا کو بہت سے ناگوار حالات کا سامنا بھی کرنا پڑا، لیکن مولانا نے صبر واستقامت کا دامن تھامے رکھا، خود تو مبتلاۓ درد رہے لیکن صدا درگذر سے کام لیتے رہے اور یوں عزیمت کے ایک مثالی کردار سے اپنے اخلاف کو یہ پیغام دے دیا کہ حالات بھلے ہی ناموافق ہوں، لیکن ہمیں دینی خدمات میں عزم کا پہاڑ بنے رہنا چاہئے، اور ایسے مواقع پر اپنے اکابرِ دیوبند خاص کر حضرت مدنی رحمہ اللہ کے کردار کو پیشِ نظر رکھنا چاہئے.
  یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
مولانا کے تئیں میری عقیدت مندانہ کائنات
       آپ کا قائم کردہ ادارہ مظہرالعلوم ریاستِ تلنگانہ وآندھرا کے اضلاع میں شعبۂ عالمیت کے اداروں میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے کہ جہاں سیکڑوں طالبانِ علومِ نبوت کی ابتدائی صلاحیتوں کواس طرح پروان چڑھایا گیا اور تا ہنوز وہ اپنے سفر میں سرگرم ہے کہ بعد میں یہاں سے پڑھنے والے  ازھرِہند دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوکر ملک کے باکمال،اور ذی استعداد علماء میں شمار ہوتے ہیں۔
        راقم الحروف عاجز گرچہ مولانا کے ادارہ کا فارغ التحصیل نہیں اور نہ ہی مولانا سے رسمی شرف تلمذ حاصل ہے، تاہم مولانا کے فیض سے محروم بھی نہیں.
اس عاجز کو مولانا محترم سے جو شفقتیں اور جو پیار ملا ہے اسکے بعد جابجا یہ کہا جاسکتا ہے کہ مولانا کو اپنے تلامذہ سے کتنا پیار رہا ہوگا کیونکہ وہ تو انکے روحانی ابناء ٹہرے.
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
         تحریر کو مختصر کر، بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ مولانا کی زندگی تاریخ کا ایک روشن باب ہے، اور اب بظاہر دور دور تک اس کی تلافی کے امکانات نظر نہیں آتے۔
علماءکی ھے آنکھیں نم مغموم ھے طلبہ بھی
     دل پہ ھے بہت بھاری تیرا یوں چلےجانا
       مولانا کی وفات حسرت آیات سے دل و دماغ کو جو صدمہ لاحق ہوا، اس سے تو خود عاجز ہی دوسروں کی تعزیت وتسلی کامحتاج ہے. تاہم کچھ ہمت باندھ کر مولانا کی اہلیہ دام ظلھا کے علاوہ تمام تلامذہ ومعتقدین محبین ومخلصین خاص کر حضرت مولانا آصف صاحب دامت برکاتہم کہ جنہوں نے مولانا سے رشتہ داری اور دین کے کام میں معاونت کا حق ادا کردیا. برادرم مولانا سمیع اللہ قاسمی صاحب جو مولانا کے منظورِ نظر بھتیجے سفر وحضر کے ساتھی. برادرم مولانا عبدالقیوم شاکر صاحب قاسمی جنکو یقیناً مولانا کی روحانی اولاد میں سب سے زیادہ مولانا کا قرب بھی ملا؛ پیار اعتماد و اعتبار بھی، جو مولانا کے اشاروں کو بھانپ کر تمام ہی امور کو بحسن وخوبی انجام دیتے، جو مولانا کے ساتھ سایہ کی طرح رہے ساتھ ساتھ چلے اور اتنا. کہ انکی ترجمانی کرنے لگے، انکے کاموں کو آسان کرتے رہے؛ اور انکی خوب سے خوب تر توجہات اور دعائیں اپنے حق میں لیتے رہے، کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش کرتا ہوں اور دعاگو ہوں کہ اللہ پاک ان سب کو دلی اطمینان قلبی سکون اور صبرِ جمیل عطاء فرمائے اور شہر نظام آباد کی عوام کو جو حضرت مولانا عطاء الرحمن صاحب رحمہ اللہ کے بعد بارِ ثانی گویا یتیم ہوگئی ہے؛ کو بہت جلد مولانا جیسا مشفق ومہربان سرپرست عطاء فرمائے؛ اور مولانا کو اپنا خصوصی قرب اور اپنے اکابرِ دیوبند کے جوار میں جگہ نصیب فرمائے. آمین
    ایں دعاءاز من واز جملہ جہاں آمین آباد

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×