کابل: 27؍دسمبر (ذرائع) افغانستان میں خواتین کی تعلیم کو روکنے پر ایرانی حکومت کی تنقید کے جواب میں طالبان کی وزارت خارجہ نے ٹوئٹر پر جواب دیا ہے۔ وزارت نے کہا "ان کے لیے بہتر ہے کہ وہ اپنے ملک میں احتجاج کرنے والی خواتین کو قائل کریں اور ہمدردی کے نام پر اپنے ملک کے اندرونی مسائل توجہ ہٹانے کی کوشش نہ کریں۔” ایرانی وزارت خارجہ نے افغان یونیورسٹیوں میں خواتین کو تعلیم حاصل کرنے سے روکنے کی خبریں شائع ہونے پر افسوس کا اظہار ایک ایسے وقت میں کیا تھا جب مہسا امینی کے قتل کی وجہ سے شروع ہونے والی عوامی بغاوت میں خود ایرانی حکام خواتین اور طالب علموں پر پر تشدد کارروائیوں کا نشانہ بنانے ملوث ہیں۔ جمعرات کو ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنانی نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران ہمسایہ ہونے کے ناطے افغانستان میں امن، استحکام اور ترقی میں دلچسپی رکھتا ہے۔ یہ سن کر افسوس ہوا کہ افغانستان میں لڑکیوں کی اعلیٰ یونیورسٹیوں کی تعلیم میں رکاوٹیں پیدا کی جارہی ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ نے یہ امید بھی ظاہر کی کہ طالبان "جلد رکاوٹوں کو دور کریں گے اور اس ملک کے مرد اور خواتین طلبہ کے لیے تعلیم کی تمام سطحوں پر تعلیم کی بحالی کی راہ ہموار کریں گے۔” اتوار کو ایک ٹویٹ میں طالبان کی وزارت خارجہ نے اس فیصلے کو تعلیمی عمل میں عارضی تاخیر دیا تھا۔ طالبان کے ہائر ایجوکیشن کے وزیر نے خواتین کی یونیورسٹی میں تعلیم عارضی طور پر روکنے پر عالمی رد عمل کے جواب میں کہا تھا کہ ہم پر ایٹم بم بھی گرا دیا جائے تو ہم خواتین سے متعلق فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔