پٹنہ : 9؍اکتوبر (عصرحاضر) امیر شریعت سابع مولانا سید محمد ولی رحمانی علیہ الرحمہ کی وفات کے بعد سے انتخابِ شریعت کو لیکر پچهلے کئی ماہ سے مسلسل مباحثوں کا بازار گرم تھا اس دوران آج انتخابِ امیرِ شریعت کے لیے ارباب حل و عقد کی ایک میٹنگ منعقد کی گئی جس میں ووٹنگ کے ذریعہ مولانا احمد ولی فیصل رحمانی امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ،جھارکھنڈ کے آٹھویں امیر شریعت منتخب ہوگئے ہیں۔
امیر شریعت کے انتخابی اجلاس میں بہار اُڑیسہ و جھارکھنڈ کے 851 اراکین نے حصہ لیا۔ امیر شریعت کا انتخاب ارباب حل و عقد کرتے ہیں۔ ابتدائی خبروں کے مطابق مولانا احمد ولی فیصل رحمانی کو 347 ووٹ ملے جب کہ ان کے نزدیکی حریف مولانا انیس الرحمان قاسمی کو 197 ووٹ ملے ہیں۔ جبکہ کئی اراکین نے شرکت کرنے کے بعد بائیکاٹ کرتے ہوئے جلسہ گاہ سے نکل پڑے تو کئی اراکین نے شرکت ہی نہیں کی۔
یہ انتخاب آٹھویں امیرشریعت کے لئے ہوا ہے یہ انتخاب امیر شریعت سابع مولانا ولی احمد رحمانی کے انتقال کی وجہ سے ضروری ہوگیا تھا ۔ اجلاس میں مولانا صغیر احمد رشادی امیر شریعت کرناٹک اور امیر شریعت آسام مولانا یوسف بھی بطور مشاہدین شریک تھے۔
اس سے پہلے چار پانچ ناموں پر غور کیا جارہا تھا ، جس میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مفتی نذر توحید اور موجودہ نائب امیر شریعت مولانا شمشاد رحمانی، مولانا انیس الرحمان قاسمی اور مولانا احمد ولی فیصل رحمانی تھے۔ جن میں سے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مفتی نذر توحید اور موجودہ نائب امیر شریعت مولانا شمشاد رحمانی نے اپنا نام واپس لے لیا ، جس کے بعد دونوں مولانا احمد ولی فیصل رحمانی اور مولانا انیس الرحمان قاسمی کے درمیان مقابلہ ہوا۔
یہ پہلا انتخاب تھا جس میں زبردست کشمش بڑے پیمانے پر دیکھی گئیں ۔ ارباب حل و عقدنے اتفاق رائے سے امیر شریعت منتخب کرنے پر زور دیا لیکن اتفاق رائے پیدا نہ ہونے پر ووٹنگ کا راستہ منتخب کیا گیا۔ پولیس کے بندوبست اور تمام انتظامات کے دوران ووٹنگ کا عمل شروع ہوا۔ انتخابی عمل ختم ہونے کے بعد مولانا احمد ولی فیصل رحمانی کو آٹھویں امیر شریعت منتخب کرلیا گیا۔
مجُلس میں موجود تمام ارباب حل و عقد نے امیر شریعت ثامن کے ہاتھوں بیعت کیا۔ ان کے ہاتھوں پر سب سے پہلے قاضی شریعت مولانا انظار عالم قاسمی نے بیعت کیا اور اس کے بعد نائب امیر شریعت مولانا شمشاد رحمانی نے بیعت کیا۔ اس پروگرام کی صدارت نائب امیر شریعت مولانا شمشاد رحمانی نے کی ۔ جبکہ مجلس استقبالیہ کے صدر رکن راجیہ سبھا احمد اشفاق کریم نے مہمانوں کا استقبال کے ساتھ شکریہ ادا کیا۔
مولانا احمد ولی فیصل رحمانی بھی اپنے والد مولانا سید محمد ولی رحمانی اور جد امجدؒ کی طرح علم وعمل کے حسین سنگم ہیں۔ ان کی شخصیت میں عصری اوردینی علوم کا امتزاج ہے ۔ مولانا احمد ولی فیصل رحمانی کی فکر ہے کہ علماء ، جدید علوم وٹکنالوجی سے واقف ہی نہیں بلکہ ان کے ماہر ہوں ۔ چنانچہ انھوں نے جامعہ رحمانی میں شعبہ’دارالحکمت‘ قائم کیا اور تقریبا دس برسوں سے ان کی نگرانی میں کوشش ہے کہ حفظ کے طلبہ بھی حافظ ہونے کے بعد عربی سے اس قدرواقف ہوں کہ قرآن مجید کا خود ترجمہ کرلیں ۔ ساتھ ہی زوردیتے رہے کہ وہاں کے اساتذہ، کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی سیکھیں اورجدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں۔
جامعہ رحمانی میں ابتدائی تعلیم اوروالد بزرگوارؒ سے تربیت کے بعد عالم اسلام کی عظیم یونیورسیٹی جامعہ ازہرقاہرہ مصرسے علوم اسلامیہ اورعربی زبان میں درک حاصل کیا ۔ ان کی انگریزی تقاریرسننے کے بعد علم کی گہرائی، وسعت مطالعہ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے مغربی دنیا کوبہت قریب سے دیکھا ہے۔ امریکہ میں نیوکلیئرپاورپلانٹ اورآئل وگیس محکموں کی اہم ذمے داری نبھائی ہے ۔ 2001 سے 2005 تک امریکہ کی مختلف اعلیٰ کمپنیوں میں خدمات دیتے رہے ۔