آئینۂ دکن

ویلنٹائن ڈے بے حیائی اور فحاشی کا دوسرا نام ،مسلمان مغربی تہذیب سے متاثر نہ ہوں

مولانا غیاث احمد رشادی صدر منبر ومحراب فاؤنڈیشن کا صحافتی بیان

حیدرآباد۔13؍فروری (پریس نوٹ)دنیا میں پائے جانے والے تمام مذاہب میں مغربی الحاد اور بے دینی کی لہر رفتہ رفتہ اپنا گہرا اثر دکھارہی ہے، صورتحال یہ ہے کہ لوگوں میں مذاہب کا اثر صرف ناموں تک رہ گیا ہے اخلاقیات ومعاشرت اسی مغربی تہذیب کی نذر ہوتی جارہی ہے ، ہمارے معاشرہ کا سرمایہ دار طبقہ مغربی تہذیب وثقافت کا دلدادہ بنتا جارہا ۔ بے حیائی، عریانی، فحاشی کی کئی وجوہات ہیں مغرب نے آزادیٔ نسواں کے عنوان سے بے شرمی و بے حیائی کے کئی عناوین کو متعارف کروایا ہے کہ مغرب کے نمائندوں کی دی ہوئی ایک لعنت کبھی ویلنٹائن ڈےہے جس کے ذریعہ بے حیائی اور فحاشی معاشرے میں پھیلا کر مذہب سے دوری پیدا کرنے کے لیے محنتیں کی جارہی ہیں مسلمان نوجوان لڑکیاں اور لڑکے یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ویلنٹائن ڈے بے حیائی اور فحاشی کا دوسرا نام ہے اس کا اسلامی تہذیب سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے ۔ ان خیالات کا اظہار مولانا غیاث احمد رشادی صدر منبر و محراب فاونڈیشن انڈیا نے اپنے صحافتی بیان میں کیا ہے۔ مولانا نے کہا کہ ویلنٹائن ڈے کی ابتداءاور اس کے حقائق کیا ہیں؟۔ویلنٹائن ڈے کی ابتداء سے متعلق بہت سی باتیں مشہور ہیں ، انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا کے مطابق اس دن کا تعلق قدیم بُت پرستوں (رومیوں) کے ایک دیوتا کے مشرکانہ تہوار سے ہے ، یہ تہوار ہر سال فروری کے وسط میں منایا جاتا تھا، اس تہوار میں کنواری لڑکیاں محبت کے خطوط لکھ کر ایک بہت بڑے گلدان میں ڈال دیتی تھیں، اس کے بعد محبت کی اس لاٹری میں سے روم کے نوجوان لڑکے ان لڑکیوں کا انتخاب کرتے جن کے نام کا خط لاٹری میں اُن کے ہاتھ آیا ہوتا، پھر وہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں شادی سے پہلے ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے ملاقاتیں کرتے، ویسبٹرز فیملی انسائیکلوپیڈیا کے مطابق عیسائیت کے مذہبی رہنماؤں نے اس مشہور بت پرستانہ رسم کو ختم کرنے کے بجائے اسے عیسائی لبادہ اوڑھانے کے لیے ایک پادری ”سینٹ ویلنٹائن” کے تہوار میں بدل دیا،”سینٹ ویلنٹائن” وہ پادری ہے جسے ”شاہ کلاڈیس” نے اس جرم میں قتل کروادیا تھا کہ وہ ایسے فوجیوں کی خفیہ طور پر شادیاں کروایا کرتا تھا، جنہیں شادیوں کی اجازت نہ تھی، سزا کے دوران قید کے زمانہ میں ویلنٹائن جیلر کی اندھی بیٹی پر عاشق ہو گیا، سزا پر عمل درآمد سے پہلے اپنی محبوبہ کو آخری خط لکھا، جس کے آخر میں دستخط کے طو ر پر ”فرم یور ویلنٹائن” تحریر کیا، یہ طریقہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رواج پا گیا،بعض لوگ اس دن کو رومیوں کی محبت کے دیوتا ”کیوپڈ” سے متعلق سمجھتے ہیں ، اس کے بارے میں عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ لوگوں کے دلوں میں تیر مارکر انہیں عشق میں مبتلا کرتا ہے ، اُن کا یہ بھی خیال ہے کہ اس کی ماں ( محبت کی دیوی ”Venus”) کاپسندیدہ پھول گلاب ہے۔مولانا نے کہا کہ ہم بہ حیثیت مسلمان کس طرح ان غیر شرعی و غیر اخلاقی باتوں کو قبول کریں گے؟ ہمارے نبی حضرت محمدﷺ نے ہمیں حیاء و پاکدامنی کی تعلیمات دی ہیں۔ ویلنٹائن ڈے اگرپادری ویلنٹائن کی داستان عشق کی یاد منانے کا دن ہے تو یہ ایک انتہائی گھٹیا عمل ہے، جو مذہب کے نام پر حرام کاری کرے اور دھوکہ دے جس کو خود اس کے مذہب والوں نے انکار کر دیا ہو ہم بہ حیثیت امتی رسولﷺ ہونے کے کس طرح اس کو اپنا کر الله کو راضی کرسکیں گے۔ مولانا نے کہا کہ شرم و حیاانسان کی فطرت کا حصہ اور ایمان کا جزو ہے ۔ اس کا لحاظ رکھنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ معاشرے میں اس طرح کے تہواروں کو پروان چڑھانا، اسلامی معاشرے کی تباہی و بربادی پھیلانے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ ہمیں اس بارے میں بہت گہرائی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ اللہ پاک امت مسلمہ کو اس شر سے بچائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×