مضامین

موجودہ حالات میں دعوت دین کی شکلیں

از:حافظ محمد عبد الرافع سلمہٗ متعلم ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد

یہ بات ابھرتے سورج سے زیادہ واضح و روشن ہے کہ اسلام ہی عنداللہ مقبول اور پسندیدہ دین ہے، یہی وجہ ہے کے اسلام کو ایک کامل و مکمل ضابطہ حیات اور جملہ مسائل کا حل قرار دیا گیا ہے ، چودہ سو سالہ تاریخ شاہد ہے کے احوال زمانہ کتنی ہی کروٹیں کیوں نہ بدلے، دنیا کتنی ہی ترقی پذیر کیوں نہ ہو جائے،وہ اسلام کے جامع ترین دستورِ حیات سے باہر نہیں جا سکےگی۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ابدی دستور ودائمی منشور کی حفاظت و بقاءکے لئے جس طریق کو پسند کیا ہے وہ دعوت و تبلیغ کا طریقہ ہے اور اسی امتیازی وصف کے سبب امت محمدیہ کو دیگر امم سابقہ کے بالمقابل خیرامم کا لقب دیا گیا ہے جیسا کے باری تعالی کاارشاد ہے:کنتم خیرامةاخرجت للناس۔۔۔
اس آیت کی تفسیر میں مفسر قرآن مفتی اعظم حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی صاحبؒ فرماتے ہیں کہ : یہ امت خلقِ خداکو نفع پہونچانے کے لئےہی وجود میں آئی ہے،البتہ زمانے کے بدلتے حالات اور لوگوں کے مزاج ومذاق کی تبدیلی کے باعث ہر دور میں دعوت وتبلیغ کا ذریعہ دیگر زمانوں سے مختلف رہا ہے ۔چنانچہ مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ نے ایک مرتبہ فرمایا : وما ارسلنا من رسول الابلسان قومهکا مطلب یہ نہیں ہے کہ ملک چین کی زبان بولنے والی قوم میں چین کی زبان بولنے والےنبی کو مبعوث کیا گیا، بلکہ اس کا اصل مطلب یہ ہے کہ ہرقوم میں اس قوم کے مزاج اور نفسیات کو سمجھنے والا نبی بھیجا ‘‘
اگر دیکھا جائے تو آج ابلاغ و ترسیل کے ذرائع میں غیر معمولی ترقی ہوئی ہے۔ اس کثرت ذرائع ابلاغ والے دور میںاگر بالفرض کوئی نبی مبعوث ہوتا تو وہ دعوت دین کے لئے حدود شرع میں رہ کر من جملہ اسباب کے میڈیا کا استعمال کرتا کیوں کے میڈیا آج لوگوں کی ذہن سازی اور لوگوں تک بات پہونچانے کا اہم ترین ذریعہ بن چکا ہے اور میڈیا اس وقت دور حاضر کی لا بدی ضرورت ہے جس کے بغیر کوئی بھی سیاسی سماجی، ملی و مذہبی جماعت کا قوم سے کامل ارتباط مشکل ہے، اسی میڈیا کی کرشمہ سازی ہے کے آج پوری دنیا ایک گاؤں یا ایک شہر میں تبدیل ہو کر رہ گئی ہے جسے اصطلاح میں گلوبلائزیشن یعنی عالمگیرت کہتے ہیں۔ یعنی میڈیا کے استعمال کے ذریعہ ہم اپنی بات کو عالم گیر سطح پر ہر طبقے کے لوگوں تک پہونچا سکتے ہیں تو ہم خدام دین اور دعاة اسلام کے لئے ضروری ہے کہ مذکورہ اہمیت اور میڈیا کی انفعیت کے پیش نظر اُس کو دینی مفاد کی خاطر استعمال میں لائیں اوراس کے ذریعہ دین کی اشاعت کریں،دعوت اسلام کے مواقع و امکانات میں غور وفکر کریں۔اپنے پڑوسیوں اور اپنے گاہکوں کے درمیان اچھے اخلاق اور اعلیٰ کردار پیش کرکے اسلام کی خوبیوں اور اس کے بنیادی عقائد کو درست طریقے سے پیش کریں۔
مسجد میں منعقد ہونے والے پروگرام میں اپنے سے مانوس غیر مسلم حضرات کو مدعو کر کے انہیں اذان، نماز اور اعمالِ مسجد کا تعارف کروایا جا سکتا ہے، اور ان کے لئے ضیافت کا اہتمام کرکے اسلامی طریقۂ دعوت کی تعلیم سےآشناکیا جا سکتاہے ، غریب و پسماندہ طبقوں میںکےمیڈیکل کیمپ اور سبیل لگا کر یا غلہ وغیرہ تقسیم کر کے اسلامی تصور کو اجاگر کیا جاسکتا ہے، مزید یہ کہ درگاہوں اور عاملوں کی چوکھٹ پر مسلمانوں اور غیر مسلموں کی آمد ورفت ہوتی رہتی ہے بجائے اس کے کہ ان کی تو ہماتی مزاج سے کھلواڑ کیا جائے ، اور ان کو غیر اللہ کی پرستش کے غلط طریقےپر ڈالا جائے انہیں توحید سمجھائی اوربہت سےگناہوں سے روکا جاسکتا ہے،اور ملک کے تاریخی مقامات قطب مینار، لال قلعہ، تاج محل وغیرہ پر آنےوالے زائرین کو اسلام کا آسان اور سہل انداز میںتعارف کروایا جائے ، اور انہیں اسلام کی مختلف کتب بھی ہدیۃ دی جاسکتی ہیں ،وہیں صبح سویرےصحت کی خاطر پارکوں پر آنے والے لوگوں سےاسلام میں احترامِ انسانیت سے متعلق کتابیں پڑھنے کی ترغیب دی جاسکتی ہے،عصری اسکولوں اور کالجوں کےمابین ایسے تحریری اورتقریری مسابقے مقامی اور انگریزی زبان میں رکھے جاسکتے ہیں جس میں ملکی سیکولر قائدین کے ساتھ حضرت محمدﷺ کے پیغام ِ امن اور غیر مسلموں میں راوداری کی تعلیمات، قرآن میں انسانیت کا مقام جیسے عناوین داخل کئے جائیں ، اپنے گھر، دکان ، اپنی کمپنی میں کام کرنے والے غیر مسلم ملازمین کے سامنے اسلامی احکامات اورمسادات کا پیغام بتلا کر، نیز عملی طور پر حسن سلوک کرکے قبول دعوت کے لئے راستے ہموار کئے جاسکتے ہیںتاکہ ان مذکورہ افعال سےموجودہ حالات کو بدلا جا سکے ، ابھی بھی وقت ہے کہ دشمن کی فتنہ انگیزیوں اور چالبازیوںکا منھ توڑ جواب دیا جائے ۔میڈ یا کا جائز استعمال کیا جائے ،تاکہ ہم صحیح معنی میں اپنے ’’کنتم خیر امۃ ‘‘ ہو نے کا ثبوت پیش کر سکے ،بلکہ خیرِ امت ہو نے کی حیثیت سے اپنے مسلمان ہو نے کا صحیح معنی میں فریضہ اد کر سکیں، جہاں تک اقوام عالم کی بات کی جائے تو دنیا نے ایک نیا موڑ لے لیا ہے اور گردش ایام نے بھی دنیا کے ساتھ ترقی کی ایک نئی کروٹ لی ہے، اگر ذرائع ابلاغ کی بات کی جائے تو ان میں بھی کئی ایک سسٹم آپ کے پاس موجود ہیں،کرنٹ میڈیا ،پرنٹ میڈیا ،سوشل میڈیا وغیرہ جہاں سے ہم دنیا والوں کو اسلام کی دعوت دے سکتے ہیں ،اور ’’بلغوا عنی ولو آیۃ‘‘ کی ذمہ داری سے عہدہ برآہ ہو سکتے ہیں اور اس کے صحیح اور مناسب استعمال سے ’’ادعو ا الی سبیل ربک ‘‘ پر بحسن وخوبی عمل کر سکتے ہیں ،اسی طرح سوشل میڈیا پر دعوتی گروپس بنا کر ’’ولتکن منکم امۃ یدعو ن الی الخیر ‘‘ کے ذریعہ امربالمعروف اور نہی عن المنکرکے فریضہ کو بھی اچھے اسلوب کے ساتھ انجام دیا جاسکتاہے ۔
حالیہ قطر ۲۰۲۲ءفیفا ورلڈ کپ (Fifa World Cup)ہمارے مبلغین اور دعاۃِ اسلام کی رہنمائے کے لئے ایک زندہ مثال ہے ،جس کا اثر عوام الناس میں کھلی آنکھوں دیکھا جاسکتا ہے ،اور ایک اہم کام جو اس وقت میںہمیں کرنا ہے ،وہ اقلیتوں کےساتھ اتحاد واتفاق ہے ،خاص کر دلت ،سکھ ،عیسائی کے ساتھ اور اس معاہدے کو برو کار لا کر جس کو تاریخ نے حلف الفصول کا نام دیا ہے ،جس کی بنیاد ہی انصاف پر تھی اور اس کے ذریعہ اسلام کا ایک پیغام یہ بھی تھا کہ وہ ظلم وجبر کو روا نہیں رکھتا ،بلکہ وہ تو اللہ کے بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر اللہ تعالیٰ کی بندگی میں داخل کرتا ہے ،جس کے بارے میں خود آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : لو دعیت بہ الیوم فی الاسلام لأجبتہ گویا یہ ایک وقتی تدبیر اور عارضی مہم اور عارضی حکمت ِ عملی نہیں تھی بلکہ ایک اصولی فیصلہ اور مضبوط جدوجہد تھی ،جس کی بنیاداسلامی تعلیمات کی روح پرتھی اور اس کے اُصول انصاف کا واضح آئینہ دار تھے ۔
اگر اب بھی ہم لوگوں میں جذب دروں اور سوز فزوں نہیں ہے ،اور دل بے تاب اور چشم پر آب نہیں ہے تو پھر ہم لاکھ لائحہ عمل اور تدابیر اختیار کرلیں کوئی فائدہ نہیں ۔
اخیر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان جاں بلب حالات میں مؤثر حکمتِ عملی اور لائحہ عمل کو اختیار کر کے دعوت کے میدان میں اترنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×