احوال وطن

ماضی میں کانگریس کی لچکدار پالیسی سے فرقہ پرستوں کو تقویت ملی: مولانا ارشدمدنی

مہاتما گاندھی کا سفاکانہ قتل سیکولرزم کے قتل کے متراف تھا

ممبئی، 20 مئی (عصرحاضرنیوز) ملک میں موجودہ فرقہ پرستی کی لہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جمعیۃعلماء ہند کے صدر مولاناسیدارشدمدنی نے تاریخی تناظرمیں واضح طورپر دعوی کیا کہ ملک کی آزادی کے بعد کانگریس نے جو لچکدارپالیسی اپنائی اس سے فرقہ پرستی کو نہ صرف تقویت ملی بلکہ اسے پھلنے پھولنے کا بھرپورموقع ملا۔انہوں نے یہ دعوی آج یہاں ممبئی کے انجمن اسلام گراؤنڈمیں کے تین روزہ اجلاس کے دوسرے دن مجلس منتظمہ کے اہم اجلاس میں اپنا صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے کیا۔

جمعیۃعلماء ہند کی جاری کردہ ریلیز کے مطابق انہوں نے آگے کہا کہ مہاتمام گاندھی کا سفاکانہ قتل سیکولرزم کے قتل کے مترادف تھا اوریہیں سے ملک میں فرقہ پرستی کی جڑیں گہری ہوتی گئیں.۔ انہوں نے کہاکہ مولانا آزادکی کتاب ”انڈیاونس فریڈم“کا ایک طویل اقتباس پیش کیا جس میں مولانا آزادنے مہاتماگاندھی کے قتل کے بارے میں تفصیل سے لکھاہے اورواضح طورپر یہ بات بھی لکھی ہے کہ حکومت کی جانب سے ان کو تحفظ فراہم کرنے کی کوئی مؤثرکارروائی نہیں کی گئی حالانکہ اس سے پہلے بم پھینک کر ان کو قتل کرنے کی سازش ہوچکی تھی۔ اس وقت سردارپٹیل وزیرداخلہ تھے۔اپنی تحریر میں مولانا آزادنے وہ حقائق بھی پیش کئے ہیں جن کی وجہ سے پٹیل گاندھی جی کے خلاف ہوگئے تھے۔ یہی نہیں گاندھی جی کے قتل کے بعدجے پرکاش نرائن جیسے لیڈرنے صاف طورپر کہاتھا کہ وزیرداخلہ گاندھی جی کے قتل کے الزام سے بچ نہیں سکتے۔مولانا مدنی نے اسی پس منظرمیں کہا کہ اس موقع پر اوراس کے بعد بھی کانگریس نے جس طرح کی لچکدارپالیس اختیارکی اس نے فرقہ پرستی کو پنپنے اورپھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا جبکہ جمعیۃعلماء ہند کی قیادت نے برابر یہ مطالبہ کیاکہ اگر فرقہ پرستی پر قابونہ پایا گیا تو یہ ملک تباہ ہوجائے گا۔ اس ضمن میں جمعیۃعلماء ہند نے جیل بھروتحریک بھی شروع کی لیکن فرقہ پرستی پر قدغن نہیں لگائی جاسکی۔ فرقہ پرستی کے خلاف کانگریس کی پالیسی بدستورلچکداربنی رہی جس کا خمیازہ خودکانگریس کوبھگتنا پڑا، ایک دن وہ بھی آیا کہ جب اس کے ہاتھ سے اقتدارچھن گیا، کرناٹک کے لئے جاری کانگریس کے انتخابی منشورکا ذکر کرتے ہوئے جس میں فرقہ پرست تنظیموں پر پابندی لگانے کا وعدہ کیا گیا ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ اگریہی پالیسی آزادی کے بعد سے اختیارکی جاتی توملک کا یہ حال نہ ہواہوتا۔ اس لچکدارپالیسی نے ایسے بہت سے لیڈروں کو بھی اقتدارمیں پہنچادیا جن کا سیاسی نظریہ کانگریس کے نظریہ سے مختلف تھا یہ وہی نظریہ ہے جس پر گامزن رہنے کا کانگریس نے جمعیۃعلماء ہند کی قیادت سے وعدہ کیا تھا، انہوں نے یہی بھی کہاکہ ہم اس ملک سے محبت کرنے والے لوگ ہیں، یہ وہی سرزمین ہے جس پر حضرت آدم علیہ السلام (منو) کو جنت سے اتاراگیا تھا، دنیا میں جس قدربھی انسانی نسلیں آبادہیں ان کی اصل بنیادبھارت ہی ہے۔ تمام لوگ انسا ن ہونے کی حیثیت سے ہمارے بھائی ہیں۔ یہی وہ بنیاد ی نقطہ نظرہے جو جمعیۃعلماہند،اس کے اکابرین اورمتحدہ قومیت کی بنیادہے۔

انہوں نے صاف لفظوں میں کہا کہ آزادی کے فورابعد ملک کی تقسیم مسلمانوں کے لئے تباہ کن ثابت ہوئی، اس کے پیچھے مذہب اوردوقومی نظریہ تھا جو ہمارے اکابرین کی نظرمیں غلط تھا اورغلط ہے اورقیامت تک غلط رہے گا۔ ہمارے اکابرین متحدہ قومیت کے نظریہ کے طرفدارتھے چنانچہ جمعیۃعلماء ہند اپنے اکابرین کے اسی نظریہ پر قائم ہے اورہمیشہ قائم رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ آزادی کے 75برس بعد بھی فرقہ پرستی کا جو نظریہ زندہ ہے وہ پہلے سے کہیں زیادہ طاقتورہیں۔ یہی نظریہ اس ملک کی صدیوں پرانی پیارومحبت، اخوت اوربھائی چارہ کے تاریخ کو آگ لگارہاہے توکبھی طاقت کے بل پر مسجد کو مندربناتاہے، کبھی ہمارے اداروں املاک اورآثارکومٹانے کی سازش کرتاہے۔فسادات کا نہ توسلسلہ رکااورنہ ہی فرقہ پرستی کے خلاف کوئی قانون بناایسے میں ایک بڑاسوال یہ ہے کہ مسلمان کیا کرے؟ یہ ایسا موضوع ہے جس پر ہمیں مل کر سنجیدگی سے غوروفکرکرناچاہئے۔ انہوں نے ارتدادکے فتنہ کا بھی ذکرکیا اورکہا کہ مسلمانوں خاص طورپر شمالی ہند کے مسلمانوں کو اسے روکنے کی عملی کوشش کے تحت لڑکے اورلڑکیوں کے لئے الگ الگ اسکول وکالج کھولنے چاہئے۔جہاں ان کے لئے دنیاوی تعلیم کے ساتھ مذہبی تعلیم کا بھی اہتمام ہوں،اورہماراعمل کچھ ایسا ہونا چاہئے کہ برادران وطن بھی اپنی لڑکیوں کو ان تعلیمی اداروں میں بھیجنے پر مجبورہوجائیں۔ انہوں نے آگے کہا کہ ملک کی اکثریت سیکولرہیں، کرناٹک کے حالیہ الیکشن کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ الیکشن ہندومسلم دشمنی کی بنیادپر لڑاگیا مگر عوام کی اکثریت نے اسے مستردکردیا یہ ہماراملک ہے ہمارے مضبوط عقیدہ کا پہلاپتھریہیں رکھا گیا۔ اس لئے ملک کی قیمتی اورمالا مال وراثت اورتاریخ کو زندہ رکھنابھی ہم سب کا فرض ہے، انہوں نے مشورہ دیا کہ مسلمان اپنی تقریبات میں برادرا ن وطن کو مدعوکریں اورخودبھی ان کے دکھ، درداورخوشی میں شریک ہوں انہیں مدارس کے جلسوں اورتقریبات میں بھی مدعوکیا جائے ایسا کرکے ہم اسلام کے تعلق سے پھیلائی گئی غلط فہمیوں کا ازالہ کرسکتے ہیں۔ انہوں نے آخرمیں کہا کہ ہم پر یہ الزام عائد کیاجاتاہے کہ ہم دہشت گردوں کو قانونی مددفراہم کرکے آزاد کرارہے ہیں یہ الزام سراسرلغواوربے بنیادہے۔ ہماراہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ جو لوگ دہشت گردی اورملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث پائے جائیں انہیں سخت سے سخت سزادی جائے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگزنہیں کہ اس کی آڑمیں بے گناہوں کو دہشت گردقراردیکر جیلوں میں ٹھوس دیا جائے انہوں نے کہا کہ عدالتوں کے فیصلوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ زیادہ ترمعاملوں میں گرفتارکئے گئے لوگ بے گناہ تھے۔

اس اجلاس میں کثیر تعدادمیں ملک بھرسے آئے ہوئے مندوبین نے شرکت کی، مجلس منتظمہ کے پہلے شیشن میں اتفاق رائے سے دونائب صدورمولاناعبدالعلیم فاروقی و مولانااسجد مدنی اوربطور خازن حاجی جمال کا انتخاب عمل میں آیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×