مضامین

سوشل میڈیا اور انگریز کی چائے

از:حافظ محمدعبدالمقتدر عمران،مدیر عصرحاضر

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سوشل میڈیا انگریزوں کی چائے کی طرح ہے۔ کیوں کہ ایک زمانہ تھا جہاں متحدہ ہندوستان میں چائے کا تصور بھی نہیں تھا؛ لیکن انگریزوں کی مفت کی چائے کے آغاز نے آج چائے کو زندگی کا لازمی حصہ بنادیا ہے، بالکل ایسے ہی سوشل میڈیا کا حال ہے جس کے بغیر عام آدمی کی زندگی کا تصور محال نظر آتا ہے،سوشل میڈیا پلیٹ فارمس کے ذریعہ مفت خدمات فراہم کرکے ان کمپنیوں نے بھی ہر عام و خاص ‘بلاتفریق امیر و غریب سب کو اس کا دلدادہ بنادیاہے ۔ چائے کی تاریخ سے متعلق ویب پورٹل انڈی پینڈٹ اردو پر شائع شدہ ایک مضمون کے مطابق چائے ہمارے روزمرہ کے معمول میں اتنی رچ بس گئی ہے کہ اس کے بغیر مہمانداری کا تصور ہی ممکن نہیں ہے۔آج یہ حالت ہے کہ ہماری رگوں میں خون کی بجائے شاید چائے دوڑ رہی ہے، لیکن شاید بہت سے لوگوں کے لیے یہ بات حیرت انگیز ہو کہ سو ڈیڑھ سو سال پہلے کے ہندوستان میں عام لوگوں کے چائے پینے کا کوئی تصور موجود نہیں تھا اور لوگ صبح اٹھ کر رات کا بچا کھانا کھا کر کام کاج پر روانہ ہو جاتے تھے۔ اسی طرح اگر مہمان گھر آ جائے تو اسے لسی وغیرہ پلا کر یا کھانا کھلا کر رخصت کر دیا جاتا تھا۔ تو پھر چائے ہمارے یہاں کیسے آئی اور کیسے کسی وائرس کی طرح معاشرے کے رگ و پے میں سرایت کر گئی؟ویسے تو ہم اپنی ہر خامی اور برائی کا ذمہ دار مغرب کو ٹھہراتے ہیں، جو کبھی صحیح کبھی غلط ہوتا ہے، لیکن کم از کم چائے کے معاملے میں واقعی ذمہ دار انگریز ہی ہیں۔دراصل انگریزوں نے چین سے چائے درآمد کر کے دنیا کے مختلف حصوں میں بیچنا تو شروع کر دی تھی لیکن انہیں اس بات کا رنج تھا کہ اس پر چین کی اجارہ داری کیوں ہے۔ 1870 میں انگلستان میں بکنے والی 90 فیصد چائے چین سے آتی تھی اور اس کی قیمت چاندی کے سکوں میں ڈھل کر یورپ سے نکلتی تھی اور چینی تجوریوں میں بند ہو جاتی تھی۔انگریزوں نے وہ حل نکالا جسے کارپوریٹ تاریخ کی سب سے بڑی چوری کہا جاتا ہے۔ انہوں نے 1848 میں رابرٹ فارچیون نامی ایک جاسوس چین بھیجا جس نے چائے بنانے کا صدیوں پرانا راز چوری کر لیا، اور چند برسوں کے اندر اندر اس کی مدد سے ہندوستان میں پتی کے درخت اگانا شروع کر دی۔لیکن اب بھی ایک مسئلہ تھا۔ چائے چند عشروں کے اندر اندر انگلستان کا تو قومی مشروب بن گیا، اور دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی قبولیت پا چکا تھا لیکن روایت کے مارے ہندوستانیوں نے اسے زیادہ بھاؤ نہیں دیا اور وہی اپنی لسی چھاچھ اور شربت وغیرہ بدستور پیتے رہے۔ لیکن انگریز آخر انگریز ہے۔ انہوں نے اس کا بھی توڑ سوچا اور وہ منصوبہ شروع کیا جسے برصغیر کی تاریخ کی منظم ترین مارکٹنگ مہموں میں سے ایک سمجھا جا سکتا ہے۔ اس مہم کے تحت 20ویں صدی کے آغاز کے لگ بھگ چائے کے تاجر ہندوستان کے طول و عرض میں چائے کی پتی، چولھا اور پیالیاں لے کر پھیل گئے۔ وہ محلہ محلہ جاتے تھے لوگوں کو چائے بنا کر مفت پلایا کرتے تھے۔انہوں نے اسی پر بس نہیں کیا، بلکہ وہ پردے والے علاقوں میں اپنے ساتھ عورتیں لے کر جاتے تھے جو گھروں کے اندر جا کر خواتین کو چائے بنانے کا طریقہ سکھاتی تھیں اور چائے کی پتیاں اور پیالیاں مفت دے آتی تھیں۔اگر اس پر کسی کو ہیروئن کے بیوپاریوں کا طریقۂ کار یاد آ جائے تو بےجا نہیں ہے کیوں کہ چائے کا اہم جزو کیفین ہے اور کیفین اس حد تک نشہ آور مرکب ہے کہ اگر کوئی اس کا عادی ہو جائے تو پھر بغیر چائے پیے اس کا گزارا نہیں ہوتا بلکہ سر میں درد شروع ہو جاتا ہے۔اسی کے ساتھ چائے کے بیوپاریوں نے کپڑے کی ملوں، کوئلے کی کانوں اور دوسرے عوامی مقامات پر چائے کے کھوکھے قائم کر لیے اور وہاں سے چائے بیچنے لگے۔ اس دوران ہندوستان کے طول و عرض میں ریلوے کا جال بچھ چکا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ریلوے اسٹیشنوں پر ’ہندو پانی،‘ ’مسلم پانی کی آوازوں کے ساتھ ساتھ ’گرم چائے‘ کی آوازیں لگنا شروع ہو گئیں۔ اس مہم کا خاطر خواہ اثر ہوا اور 1940 کے آتے آتے چائے اتنی عام ہو گئی کہ مولانا ابوالکلام آزاد کو 1944 میں اپنی کتاب ’غبارِ خاطر‘ لکھتے وقت اس پر کئی صفحے کالے کرنا پڑے۔ اگر چائے کی اس تاریخ کا ہم بہ غور جائزہ لیں تو پھر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جس طرح مفت میں ملنے والی چائے آج روزانہ کروڑوں روپیے کی کمائی کرسکتی ہے تو پھر سوشل میڈیا کے اس دور میں عام آدمی سے معمولی فیس لے کر کروڑہا کروڑ روپیے کمایا جاسکتا ہے۔ٹوئٹر کے بعد اب میٹا کمپنی نے بھی آج یہ اعلان کردیا کہ وہ فیس بک ‘واٹس اپ ‘ انسٹا گرام اور میسینجر وغیرہ پر بلیو ٹک صارفین سے ماہانہ چارج کرے گا۔ انسٹاگرام اور فیس بک کی ملکیتی پیرنٹ کمپنی میٹا نے اعلان کیا ہے کہ ان دونوں پلیٹ فارمز کے صارفین بھی اب تقریباً 12 ڈالر میں ویریفائیڈ اکاؤنٹ (تصدیقی اکاؤنٹ) حاصل کر سکیں گے۔میٹا کی جانب سے تصدیقی اکاؤنٹ حاصل کرنے کی لاگت ویب پر ماہانہ 11.99 ڈالر (9.96 پاؤنڈ) ہو گی جبکہ ایپل آئی فون کے صارفین کو 14.99 ڈالر ادا کرنا ہوں گے۔یہ سہولت رواں ہفتے سے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں دستیاب ہو گی۔میٹا کے چیف ایگزیکٹو مارک زکربرگ نے کہا ہے کہ اس اقدام سے سوشل میڈیا ایپس پر سیکیورٹی اور مستند بننے کے عمل میں بہتری آئے گی۔اگر صارفین کا یہ خیال ہے کہ یہ تو ویریفائیڈ اکاؤنٹس کے لیے ہیں اور اس نوعیت کے اکاؤنٹس رکھنے والوں کے لیے کوئی بڑی بات نہیں ہے وہ بہ آسانی ادا کرلیں گے تو یہ خام خیالی ہے ۔ اس لیے کہ آگے اس نوعیت کے کئی اسکیمیں متعارف کرواتے ہوئے صارفین سے رقم وصول کرنے کی تیاری کا یہ عملاً آغاز ہے۔ آج پوری دنیا میں سوشل میڈیا کا استعمال ایک نشے کی طرح کیا جارہا ہے۔ لوگ کھانے پینے سے زیادہ اپنے موبائل فون کی چارجنگ کی فکر کرتے ہیں۔ موبائل فون سوئچ آف ہوجانا یا گم ہوجانا گویا رفتارِ زندگی کا تھم جانا ہے۔ ہر عمر کے لوگ سوشل میڈیا سے جنون کی حد تک مربوط ہوچکے ہیں۔ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمس میں سے لوگ کسی نہ کسی سے وابستہ رہتے ہیں۔ کہیں فیس بک زیادہ استعمال ہوتا ہے تو کہیں انسٹاگرام ٹوئٹر لنکڈن وغیرہ وغیرہ ۔ مفت میں اپنی خدمات فراہم کرنے والی یہ سوشل میڈیا کمپنیاں ںبھلا کب تک مفت میں سروس دیتے رہیں گے؟ ان کو بھی باضابطہ طور پر کمائی کے چاروں ہاتھ کھولنا ہے جس کا سلسلہ اب شروع کردیا گیا۔ یوٹیوب کا جائزہ لیں تو ہر صارف کو یوٹیوب بھی ہر مرتبہ اشتہار سے پاک ویڈیوز دیکھنے کے لیے چندر وپے ادا کرتے ہوئے سبسکرپشن کی اپیل کرتا رہتا ہے۔ یوٹیوب کے عادی لوگوں نے اس کا بھی سبسکرپشن حاصل کرنا شروع کردیا ہے۔ گوگل بھی اپنے صارفین کو ایک ای میل آئی ڈی کے تحت 15 جی بی ڈیٹا مفت میں فراہم کرتا ہے بعد ازاں اس سے زیادہ اسٹوریج پر ان سے ماہانہ یا سالانہ وصولیابی کرتا ہے۔ جی میل آئی ڈی ہر اینڈرائیڈ فون یوزر کے لیے لازمی ہے۔  یوٹیوب جی میل کے بعد یہ اقدام ٹویٹر کے مالک ایلون مسک نے کیا ۔ ایلون مسک کی جانب سے نومبر 2022 میں پریمیم ٹویٹر بلیو سبسکرپشن نافذ کیا گیا تھا۔اب میٹا کی ادائیگی کی سبسکرپشن سروس ابھی تک کاروباری اکاؤنٹس کے لیے دستیاب نہیں ہیں، لیکن کوئی بھی فرد اپنی ذاتی پروفائل کی تصدیق کے لیے ادائیگی کر سکتا ہے۔بیجز یا ’بلیو ٹِکس‘ کو ہائی پروفائل اکاؤنٹس کے لیے تصدیقی ٹولز کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تاکہ ان کی صداقت کی نشاندہی کی جا سکے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمس ابتدائی طور پر چند محدود چیزوں کے ساتھ شروع کیے گئے بعد ازاں ہر کوئی اپنے اپنے اعتبار سے اس کو وسعت دیتا چلا گیا اس توسیع میں لوگ ہر جگہ اپنا اپنا ذوق تلاش کرتے ہوئے ان ایپس کی وسعت سے استفادہ کرنے لگے۔ سوشل میڈیا پر تشہیری مہم سے لیکر خرید و فروخت تک ہر طرح کی سہولتیں دستیاب کردی گئیں جس سے آدمی کہیں نہ کہیں استفادہ کو ضروری سمجھنے لگ گیا اور رفتہ رفتہ اس کا عادی بن گیا۔ رات میں نیند نہ آئے یا دن میں چین نہ آئے سوشل میڈیا تو بہ ہر صورت اس کا ساتھی بنا ہوا ہے۔ آدمی سفر میں ہو یا حضر میں ساتھیوں کے ساتھ ہو یا تنہا ہر جگہ اس کو کسی کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہورہی ہے اور سوشل میڈیا ساتھ میں ہو تو بھلا کس کی اس کو ضرورت پڑے گی؟۔ دوستوں‘ساتھیوں اور اعزاء و اقربا کی اس وقت ضرورت پڑتی ہے جب یاتو چارجنگ ختم ہوجائے یا انٹرنیٹ کا سلسلہ منقطع ہوجائے۔ اب آدمی مفت میں اس قدر سوشل میڈیا کا عادی بن گیا ہے کہ اس کے بغیر جنیا دشوار ہوجائے تو پھر ایسے میں یہ کمپنیاں اس کا فائدہ تو اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی اور ان پر فیس عائد کرکے اپنا کاروبار چمکائے گی۔ مفت کی یہ عادت اب رفتہ رفتہ فیس کی ادائیگی کے ساتھ استعمال ہونے لگے گی ورنہ ادائیگی کے بغیر محدود دائرے میں بند ہوکر رہ جائیں گے۔بہ ہر حال سوشل میڈیا اور میسینجر کے کچھ پلیٹ فارمس یقینا انسانی زندگی میں معاشرتی و معاملاتی طور پر نہایت ضروری ہوچکے ہیں،چند ایک پلیٹ فارمس کو کو چھوڑ کر تقریباً تفریحی سامان ہی نظر آئیں گے لیکن لاکھوں افراد آج اس پر تفریحی و معلومات پر مبنی نشریات کے ذریعہ بہت جلد شہرت اور دولت کے اعتبار سے ترقیات کے منازل بھی طے کررہے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ سوشل میڈیا کا استعمال ریچاج کی طرح ماہانہ سہ ماہی یا سالانہ اخراجات کا حصہ بن جائے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×