مضامین

حیا کا اسلامی تصور اور مغرب کی بے حیا تہذیب

مفتی احمد عبید اللہ یا سر قاسمی خادم تدریس ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد

حیا کا اسلامی تصور

اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے، جس میں ایک طرف انسان کی خواہشات ، جذبات، احساسات کا انسانی فطرت کی رعایت کے مطابق خیال رکھا گیا ہے تو وہیں دوسری طرف اخلاق و شرافت کے بنیادی اصول اور انسانیت کی قدروں کا پاس ولحاظ بھی کیا گیا ہے، جہاں ایک طرف اسلام تہذیب و معاشرت اور مذہب و تمدن کا محافظ ہے تو وہیں دوسری طرف شرم و حیا سے عبارت اور عفت و عصمت کی حفاظت کا علمبردار بھی ہے، منجملہ اپنی جامعیت اور مانعیت کے اسلام میں حیا کا تصور بھی انتہائی پاکیزہ ہے، حیا اسلام کی بنیادی تعلیم ، سلامتی طبیعت کی پہچان ، اعلی ذوق کی علامت ہے حیا اسلام میں سراپا خیر ہے، اور اسلام نے حیا کو ایک ایسا بنیادی درجہ عطا کیا ہے جس سے دوسرے اخلاقی اقدار کو تقویت ملتی ہے، چاہے وہ عفت و عصمت کی حفاظت ہو یا مروت اور چشم پوشی کی تعلیم ؛ بلکہ گناہوں سے اجتناب میں مددگار بھی ہے، چنانچہ حضور اقدس ملین پیام نے کہیں یہ ارشاد فرمایا: کہ ” ایمان کی ساٹھ سے اوپر کچھ شاخیں ہیں اور حیاء بھی ایمان کی ایک شاخ ہے” تو کہیں اس طرح حیا کو پسند فرماتے ہوئے ذکر فرمایا: الحیا لا یأتی الا بخیر حیاء سے تو صرف بھلائی وجود میں آئی ہے، اور کبھی زبان نبوت حیا کی اہمیت پر یوں زور دیتی ہے : ” اگر تم میں شرم و حیاء نہیں تو جو چاہو کرو تو کبھی حسن کا ئنات نے حیا کو اسلام کا خلق گردانا ہے بہر دین کا ایک خالص خلق ہوتا ہے۔ اور اسلام کا خلق خلق حیاء ہے” لسان نبوت سے صادر ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حیا سے انسان خوبی و کمال کی راہ پاتا ہے، اور ہر انسان کی فطرت میں خدا تعالیٰ نے حیا کو دیعت کر رکھا ہے۔

عصر حاضر میں حیا کا فقدان لیکن دور حاضر میں اہل اسلام بالخصوص ماڈرن تعلیم یافتہ افراد، طلبہ وطالبات مغرب کی تقلید کرتے ہوئے بدتہذیبی کو سینے سے لگا رہے ہیں، حقائق سے بے خبر بڑے جوش و خروش سے ان کے باطل رسوم کو مینار ہے ہیں، روز بروز ہمارا معاشرہ مغربی بدتہذیبی کا دلدادہ بنتا جارہا ہے ، حالت بہ این جا رسید کہ اب مسلمان کبھی کرسمس منانے میں عیسائیوں کے دوش بدوش نظر آتے ہیں تو کبھی عیسائیوں کی طرح نئے سال کی آمد پر ایک دوسرے کو نیوائر کی مبارکباد دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، تو کبھی 14 فروری ویلنٹائن ڈے کے موقع پر شرم و حیا سے عاری ہو کر اپنے ناجائز تعلقات کو فروغ دے کر پھولوں کا گلدستہ تھا مے نظر آتے ہیں ، الغرض نسل نو مغربی رسومات کی تقلید میں اندھادھند فضول رسومات منانا شروع کر چکی ہے۔

حیا کا اسلامی تصور اور تہذیب مغرب سے موازنہ:

ایک طرف اسلام شرم حیاء کا وہ تصور پیش کرتا ہے جو ہماری اسلامی تہذیب اور دینی تعلیم کا ایک حصہ ہے تو دوسری طرف مغربی تہذیب شرم و حیا کو نیلام کر کے سر بازار عریانیت و فحاشیت کو فروغ دیتی ہے، ایک طرف اسلام حیاء کو انسانی فطرت کا لازمی حصہ بتا تا ہے تو وہیں دوسری طرف مغربی تہذیب بے شرمی و بے غیرتی کے لیے ایک دن مخصوص کر لیتی ہے، ایک طرف اسلام اپنے پیاروں سے ہمیشہ وابستہ اور محبت ومودت کی تلقین کرتا ہے تو دوسری طرف مغربی تہذیب محبت کے نام پر جھوٹ، اخلاق کے نام پر بد اخلاقی، تہذیب کے نام پر بدتہذیبی کو پروان چڑھاتی ہے دراصل انسان اگر شرم و حیا سے عاری ہو جائے ، ھوئی و ہوس کا پرستار بن جائے تو بے شرمی اس کی زندگی کا جز بن کر پورے معاشرے پر غلط اثرات مرتب کرتی ہے، اور پورا معاشرہ اخلاقیات، آداب اصول، اور رواداری سے عاری ہو جاتا ہے، اور اسکی جگہ بد اخلاقی اور بدتہذیبی اس سماج اور معاشرہ کا حصہ بن جاتی ہے

ویلنٹائن ڈے اور موجودہ صورت حال چنانچہ 14 فروری کو بڑے دھوم دھام کے ساتھ ” یوم محبت اور یوم عاشقاں“ منایا جاتا ہے، جام وسرور کا بازار گرم ہوتا ہے، گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ ایک دوسرے کو مبارکبادی دیتے ہیں ، شراب و شباب کی محفلیں جھائی جاتی ہیں، اور آزادی کے نام پر بے حیائی اور بے شرمی کی تمام حدیں پار کی جاتی ہیں، لڑکے لڑکیاں بے محابہ ملتے ہیں، تحفہ تحائف ، اور اظہار محبت کے کارڈز کے تبادلے ہوتے ہیں، انسان سوز اعمال کا ارتکاب ہوتا ہے، جنس پرستی اور عیاشی کا نتیجہ آخر کار زنا اور بین مذاہب شادیوں کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے ( شاید اہل نظر سے میری یہ بات پوشیدہ نہیں ) افسوس تو یہ ہے کہ آج کل یہ صرف ہوٹل کے بند کمروں، نائٹ کلبوں ہی میں نہیں ہورہا؛ بلکہ ی تماشا گلی گلی کے نکڑ اور چوراہوں پر بھی پیش کیا جار ہا ہے اور اس کو کوئی معیوب بھی نہیں سمجھ رہا ہے۔

ویلنٹائن ڈے کے فروغ کے مقاصد
قارئین کرام !!
غور کریں اور ہوش کے ناخن لیں کہ اس بے حیائی کے فروغ کے مقاصد کیا ہیں؟ اس دن کے منانے سے اہل مغرب کا بنیادی مقصد مردوزن میں ناجائز تعلقات کو فروغ دینا ہے؛ بلکہ اس طریقہ کار کو تہذیب کو قرار دینا، لوگوں میں جنسی بے راہ روی پیدا کرنا، اور ان سب کے سہارے مسلمانوں سے غیرت ایمانی نکالنا ہے، لہذا ویلنٹائن ڈے ہر اعتبار سے اوباشی اور بے حیائی کا دن ہے۔ رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف آج مغربی تہذیب کے دلدادہ افراد سے
میرا سوال ہے اور ان والدین سے بھی ہے جو روشن خیالی کے نام پر اولاد کومخلوط کا لجوں اور یونیورسٹیوں میں داخل کرا دیتے ہیں ، اور ان طلبہ وطالبات سے بھی ہے جو سر عام اسلامی تہذیب کا جنازہ نکال رہے ہیں، کیا نکاح سے قبل لڑکا اورلڑکی کے درمیان آزادانہ تعلق پر آپ کو کوئی اعتراض نہیں؟ کیا آپ کو اپنی اولاد کی عفت اور پاکدامنی در کار نہیں ہے؟ کیا طلبہ وطالبات، لڑکے اور لڑکیاں روشن خیالی کے نام پر مغربی رسومات کو انجام دے کر یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ آپ ترقی یافتہ ہیں؟ یا پھر آپ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ کہیں اہل مغرب تم پر قدامت پسندی اور بنیاد پرستی کا الزام لگا دیں گے؟ یا پھر آپ اپنی روشن خیالی سے مغرب کی نظر میں اپنا مقام بنانا چاہتے ہیں؟یا یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ ہم اس بد تہذیبی میں مغرب کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں، لہذا ائے اہل مغرب ! تم ہم سے راضی ہو جاؤ، اور ہمارے لئے اپنے دلوں میں محبت اور خلوص پیدا کر لو؟ آخر اس بے حیائی کی کیا وجہ ہے؟ ایسی بدتہذیبی کو سینے سے لگانے میں کونسی طاقت کارفرما ہے؟ کیوں کہ آپ ایک ایسی قوم کی تقلید کر رہے ہیں جہاں تہذیب کے نام پر بدتہذیبی عام ہے، جہاں اخلاقیات کا وجود ڈھونڈے نہیں ملتا ، جہاں خاندانی نظام تباہ و برباد ہو چکا ہے، جہاں مقدس رشتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے، جہاں انسانیت منھ چھپائے جائے پناہ تلاش کر رہی ہے، جہاں زندگی سے سکون رخصت ہو چکا ہے، ماں باپ اور اولاد کے درمیان ربط اور تعلق بالکل نا پید ہے، اولاد ماں کی ممتا اور باپ کے پیار سے محروم ہے، اور ماں باپ اپنے جگر پاروں کے لئے سراپا اضطراب ہیں، ائے قوم اے قوم! کیا اس مغربی تہذیب کی ظاہری چمک سے مرعوب ہو کر اس کا تھوک چاٹنے پر رضامند ہو گئے ہو؟ کیا یہ وہی لوگ نہیں ہیں جو موقع بہ موقع مسلمانوں اور اسلام کو نقصان پہنچاتے ہیں؟ اور اہل اسلام کو مذہبی فکری اخلاقی اور افرادی طور پر کمزور کرنے کیلئے لاکھوں کروڑوں ڈالرخرچ کر چکے ہیں ؟ بظاہر میرے یہ سوالات کسی خاص ذہنیت کے حامل شخص کے لئے تکلیف کے باعث ہوں لیکن حقیقت یہی کہ مسلمانوں کی اس بد تہذیبی پر آج اسلام بھی شرما رہا ہے ،شاید میرا یہ وہی درد اور خونِ جگر ہے جوالفاظ کی شکل میں آپ کے سامنے ہے۔
مسلمان ویلنٹائن ڈے کیوں نہیں منا سکتے ؟ یوم محبت منانا ذہنی ، اخلاقی اور معاشرتی تنزلی کا ثبوت ہے، بے حیائی اور منفی رجحانات کے فروغ کا سبب ہے، اسلامی عقائد کی کھلی خلاف ورزی ہے، اخلاق و اقدار سے عاری مغربی تہذیب کی اندھی تقلید، اغیار کی نقالی ،مشرکین سے مشابہت ہے، اور یہ دن اسلامی اقدار اور معاشرتی روایات کے منافی ہے، ویلنٹائن ڈے بت پرستوں کا فسق و فجور سے بھر پور تہوار ہے، بلکہ نوجوانوں کے ذہن کو آلودہ کرنے کی یہ ایک خطرناک مغربی سازش ہے، لہذا ویلنٹائن ڈے منانا مسلمانوں کا وطیرہ نہیں ہو سکتا ہے۔ کہیں دیر نہ ہو جائے !!
آج سخت ضرورت ہے کہ قوم کے اندر پھیلتے اس فکری ارتداد کوروکنے کی بھر پور کوشش کی جائے، معاشرے میں پائی جانے والی اس برائی کے خلاف بھر پور آواز بلند کی جائے ، ہم میں سے ہر فرد اپنی نسل کی تعلیم و تربیت کا فریضہ اس طرح ادا کرنے کی کوشش کرے کہ ان کے دل و دماغ میں اسلامی شعائر اور خداوندی احکام کی عظمت جاگزیں ہو۔ ہمارے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے دلوں میں جناب نبی کریم مالی ایلام کے اسوہ حسنہ پر عمل کا شوق وجذ بہ ہو، آج بھی نجات کا صرف وہی راستہ ہے جو اسلام اور اس کے پیغمبر سانی پیام کا دکھایا ہے، اسی میں اس کے درد کا درماں اور مرض کا مداوا ہے۔ آج وقت ہے پھر کہیں ایسا نہ ہو کہ پانی ہمارے سروں سے گزرجائے اور ہم سر پکڑے بیٹھے رہ جائیں۔ خدا اس پرفتن دور میں ہمارے ایمان کی حفاظت فرما، اور حضور پر نو سالی یا ایہام اور اسلام کی ابدی تعلیمات پر آخری سانس تک عمل کی توفیق مرحمت فرما آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×