مضامین

اسلام کا قانون وراثت اور مسلمانوں کی کوتاہیاں

امدادالحق بختیار

جب کسی انسان کا انتقال ہوجاتا ہے، تو اس نے جتنا مال واسباب اور جائداد وغیرہ چھوڑی ہیں، ان سب پر اس کے ورثاء کا حق ثابت ہوجاتا ہے، ان تمام ورثاء کو ان کے مقررہ حصوں کے بقدر مرنے والے کے چھوڑے ہوئے مال وجائداد میں حصہ اور حق ملتا ہے، اس معاملہ میں شریعت اسلامیہ نے کہیں کوئی کمی اور اجمال وابہام نہیں چھوڑا ہے، کون کون وارث بنیں گے اور کس کو کتنا حصہ ملے گا؟ یہ سب تفصیلات پوری وضاحت (Clarity) کے ساتھ قرآن وحدیث میں بیان کردی گئی ہیں۔
نیز شریعت نے وراثت کا نظام جنس یا نوع کی بنیاد پر قائم نہیں کیا ہے؛ بلکہ خون کی قرابت داری اور رشتہ داری اس میں موثر ہوتی ہے؛ لہذا مرنے والے سے قریبی خونی رشتہ رکھنے والا، چاہے مذکر(Male) ہو یا مونث (Female) دونوں کو وارث قرار دیا گیا ہے اور معاشرتی گہری حکمت کی بنیاد پر دونوں کے مختلف حصے متعین کیے گئے ہیں؛ چنانچہ قرآن پاک میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا. ترجمہ: والدین اور قریبی رشتہ داروں نے جو مال چھوڑا ہے، وہ چاہے کم ہو یا زیادہ، اس میں مردوں کا بھی مقررہ حصہ ہے اور عورتوں کا بھی۔ (سورة النساء: 7)
اسی طرح ایک دوسری آیت میں قرآن کا بیان ہے: يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ. ترجمہ: اللہ تبارک وتعالی تمہیں اولادکی وراثت کے سلسلہ میں یہ تاکیدی حکم دیتا ہے کہ مذکر اولاد کا حصہ دو مونث اولاد کے حصوں کے برابر ہے۔ (سورة النساء: 11)
اسی طرح اللہ تعالی نے ماں کا حصہ ، بیوی کا حصہ، بہنوں کا حصہ اور دیگر خواتین کے حصے بھی بیان کیے ہیں، جس سے یہ مسئلہ بالکل واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مرد حضرات کی طرح خواتین بھی وراثت کی مستحق ہیں، ان کو وراثت سے محروم کیا جانا قطعی طور پر غیر اسلامی طرز عمل ہے، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
اسی کے پیش نظر اللہ تعالی نے مذکر ومونث دونوں طرح کی اولاد اور والدین کی وراثت کا حکم بیان کرنے کے بعد مسلمانوں کی تنبیہ کی ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے، اس کی حکمت اللہ سے بہتر کسی کو نہیں معلوم، دونوں طرح کی اولاد کو وراثت کا مستحق قرار دینا صرف کسی دنیوی مفاد کی وجہ سے نہیں ہے؛ بلکہ یہ اسلام کا قانون ہے، چاہے اس کے دنیوی فوائد سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں ؛ ہر حال میں اس کو نافذ کرنا ہے؛ چناں چہ قرآن کا بیان ہے: آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا. ترجمہ: آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے والدین اور آپ کی اولاد میں سے کون آپ کے لیے زیادہ فائدہ مند ہیں۔ لہذا حصوں کی یہ تقسیم اللہ کی طرف سے طے شدہ ہیں۔ یقیناً اللہ تعالی سب سے زیادہ جاننے والے اور بڑی حکمت والے ہیں۔ (سورة النساء: 11)
یہ یاد رکھنا چاہیے کہ شریعت یہ چاہتی ہے کہ نظام وراثت کے قانون پر سختی اور انصاف پسندی کے ساتھ عمل کیا جائے ، نہ اس نظام میں اپنی طرف سے کوئی تبدیلی کی جائے اور نہ کسی کو ناحق محروم کیا جائے ، ہر مستحق کو اس کا حصہ ضرور دیا جائے ؛ چنانچہ اللہ عز اسمہ کا فرمان ہے: وَصِيَّةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ (12) تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (13) وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ. ترجمہ: تقسیم وراثت کا یہ نظام اللہ کی طرف سے تاکیدی وصیت اور حکم ہے۔ اور اللہ تعالی بہت علم والے اور بردبار ہیں۔ اور تقسیم وراثت کی یہ تفصیلات اللہ کے احکام اور حدود ہیں، جو اس سلسلہ میں اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا، وہ ایسے باغات میں داخل کیا جائے گا، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ ہمیش رہے گا۔ اور یہ ہی بڑی کامیابی ہے۔ اور جو اللہ رسول کی نافرمانی کرے گا، اللہ رسول کے احکام کی خلاف ورزی کرے گا، وہ آگ میں داخل کیا جائے گا، جہاں وہ ہمیشہ ہمیش رہے گا۔ اور یہ اس کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا۔ (سورة النساء: 12-14)
لہذا بہنوں، پھوپھیوں اور ماں کو: الغرض خواتین کو میراث سے محروم رکھنا ، نا انصافی، ظلم اور غیر اسلامی طریقہ ہے۔ ان کا حصہ انہیں نہ دے کر اپنے پاس رکھنا، اس کے منافع خود ہی استعمال کرنا، حرام خوری ہے، ایسے لوگ دنیا میں تو پھل پھول سکتے ہیں؛ لیکن اللہ کی سخت پکڑ اور اس کے عذاب سے نہیں بچ سکتے ۔
قرآن نے صاف لفظوں میں اعلان کیا ہے: وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ. ترجمہ: تم ایک دوسرے کا مال نا حق طریقے سے مت کھاؤ، اور حاکم کے پاس کسی کے مال (کے مقدمہ)کو مت لے جاؤ؛ تاکہ جان بوجھ کر ناجائز طریقے سے (مقدمہ جیت کر)تم لوگوں کے مال کا کوئی حصہ کھا جاؤ۔ (سورة البقرة: 188)
ایک دوسری جگہ اسی مضمون کو قرآن نے اس انداز سے بیان کیا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا (29) وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارًا وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا. ترجمہ: اے ایمان والوں! ایک دوسرے کا مال ناحق طریقے سے مت کھاؤ؛ ہاں یہ کہ تمہارے درمیان رضامندی کے ساتھ تجارت ہو(اور تجارت کے ذریعہ تمہارے پاس دوسرے کا مال آئے۔) اور ناحق کسی کا قتل مت کرو، یقیناً اللہ تعالی تم پر مہربان ہے۔ اور جو شخص طاقت اور ظلم کے سہارے یہ جرم کرے گا، یقیناً ہم اسے جہنم کی آگ میں پہنچائیں گے۔ (سنو!)یہ سزا دینا اللہ کے لیے مشکل نہیں ہے۔ (سورة النساء: 29-30)
رسول اللہ ﷺ سے بھی اس کے بارے میں سخت وعید منقول ہے، آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: «لَا يَأْخُذُ أَحَدٌ شِبْرًا مِنَ الْأَرْضِ بِغَيْرِ حَقِّهِ، إِلَّا طَوَّقَهُ اللهُ إِلَى سَبْعِ أَرَضِينَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ». ترجمہ: جو شخص بھی ناحق ایک بالشت بھی زمین ہڑپتا ہے، اللہ تعالی ضرور بالضرور قیامت کے دن (سزا کے طور پر)ساتوں زمین کا بھاری طوق اس کے گلے میں ڈالے گا۔ (صحيح مسلم، باب تحريم الظلم وغضب الأرض وغيرها، حديث نمبر: 1611)
اسی کے ساتھ یہ پہلو بھی ہم سے فراموش نہیں ہونا چاہیے کہ اگر مرنے والے پر کسی طرح کا قرض ہے، یا اس نے کوئی وصیت کی ہے، تو اس کی تجہیز وتکفین کے بعد فوری طور پر اس کے مال سے قرض ادا کیا جانا چاہیے اور اس کی وصیت کو عملی شکل دینا چاہیے، واضح رہے کہ اس میں مزید تفصیلات ہیں، کسی معتبر عالم سے اسے سمجھ لینا مناسب رہے گا۔پھر ان تینوں مراحل (تجہیز وتکفین، ادئیگی قرض، تنفیذ وصیت) کے بعد جلد از جلد وراثت کی تقسیم عمل میں لائی جانی چاہیے، اس میں تاخیر کرنا بہت سی خرابیوں کا سبب بنتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں فوراً تقسیم ترکہ کو غلط سمجھا جاتا ہے، اس عمل کو آپسی اتحاد واتفاق اور محبت کے خلاف تصور کیا جاتا ہے اور معاشرے کے لوگ اسے انتشار واختلاف اور نزاع کی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں، جب کہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ تقسیم ترکہ میں نا انصافی اور تاخیر کی صورت میں شکوک وشبہات کا بڑھنا، جھگڑوں کا پھوٹنا، رشتوں میں دراڑ پڑنا، دلوں میں دوریاں پیدا ہونا، بلکہ ایک دوسرے کی عزتوں سے کھیلنا، خون خرابہ ہونا، پولیس کیس اور عدالتوں تک معاملہ کا پہنچ جانا، یہ سب ایسے کھلے جرائم ہیں، جن کا انکار کوئی نہیں کر سکتا۔آئے دن اس کے نا خوش گوار اور تکلیف دہ مظاہرے دیکھنے میں آتے ہیں، شاید کوئی معاشرہ اس سے پاک ہو۔
جبکہ جھگڑوں اور اختلافات کی نوبت نہ آئے ، اسی لیے شریعت نے تمام وارثوں اور ان کے حصوں کی وضاحت کی ہے، اور جلد از جلد ہر حصہ مستحق اور حصہ دار تک پہنچانے کی تاکید ہے، آپس کا اختلاف شریعت کی نگاہ میں بدترین گناہ، اور شریعت نے ہر اس سوراخ کو بند کیا ہے، جہاں سے یہ اختلاف آسکتا ہے اور معاشرہ کی بربادی کا سبب بن سکتا ہے۔
جب کہ تقسیم وراثت میں جتنی تاخیر ہوتی ہے، اتنی ہی پیچیدگیاں بڑھتی ہیں، مسائل بڑھتے اور الجھتے ہیں، دشواریاں پیدا ہوتی ہیں، حقوق کی پامالی ہوتی ہے، خاموش رہنے والے اور کمزور طبقے پر ظلم ہوتا ہے، بعد میں ایک دو پشت کے بعد جب ترکہ کی تقسیم کا عمل شروع ہوتا ہے، تو بہت سی مشکلیں کھڑی ہو جاتی ہیں، جانے انجانے میں کسی نہ کسی کا حق مارا جاتا ہے، جو بڑا گناہ ہے، عذاب اور سزا کی طرف لے جانے والا ہے، قرآن نے صراحت کی ہے:
وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ. ترجمہ: جو کسی مال میں خرد برد کرے گا، قیامت کے دن اس کے اس جرم کو سامنے لایا جائے گا ، پھر ہر شخص کو اس کے عمل کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر ظلم نہیں ہوگا۔ (آل عمران: 161)
اسی طرح اللہ کے نبی ﷺ کا ارشاد عالی ہے:
«مَنْ فَرَّ مِنْ مِيرَاثِ وَارِثِهِ، قَطَعَ اللَّهُ مِيرَاثَهُ مِنَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ». ترجمہ:جو شخص وارث كو وراثت دینے سے بھاگےگا، قیامت کے دن اللہ تعالی جنت سے اس کا حصہ ختم کردے گا۔ (سنن ابن ماجة، باب الحث في الوصية، حديث نمبر: 2703)
امام بیہقی نے یہی حدیث ان الفاظ میں نقل کی ہے:
«مَنْ قَطَعَ مِيرَاثًا فَرَضَهُ اللهُ وَرَسُولُهُ قَطَعَ اللهُ بِهِ مِيرَاثًا مِنَ الْجَنَّةِ». ترجمہ: جو اللہ ورسول کے طے کردہ میراث کو ختم کرے گا، اللہ تعالی اس جرم کی وجہ سے جنت سے اس کا حصہ ختم کر دے گا۔ (شعب الإيمان، صلة الأرحام، حديث نمبر: 7594)
لہذا معاشرے نے جو بناوٹی معیار (So-Called Standard) بنائے ہیں، جن میں نقصان ہی نقصان ہے، جو فسادات کی طرف لے جانے والے اور خاندان کو اجاڑنے والے ہیں، ان سے ہمیں دور رہنا چاہیے اور ہم مسلمان ہونے کی حیثیت شریعت کے معیار اور اس کے نظام واحکام کے پابند ہیں، ہر حال میں ہمیں اسی کا اتباع (Follow) کرنا چاہیے، اسی میں خیر ہے، وہی ہماری معاشرتی بھلائی کا بھی ضامن ہے اور ہمارے اخروی فلاح کا بھی کفیل۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×