
سیدالکونین، امام الثقلین، محسن اعظم، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عقیدت ومحبت جزو ایمان ہے اور لازمۂ اسلام ہے، اس کےبغیردین و ایمان کاتصور بھی محال ہے۔محبت ایک ایسا لطیف جذبہ ہےجو ہر انسان کو اپنی جانب کھینچتا ہے،بالخصوص اس وقت جب محبوب،محسن بھی ہو اور معلم بھی،مربی بھی ہو اور مزکی بھی،رحیم وخیرخواہ بھی ہو اور شفیع و سفارشی بھی ۔محبت کا تقاضا ہے کہ محبوب کے رنگ میں رنگ جاؤ!اپنی جانِ عزیز اور گھر بار اس پر نچھاور کردو! اس کی چاہت پر ہر چاہت کو قربان کردو!اس کے حکم پر کسی حکم کو غالب نہ آنے دو۔درونِ قلب سے بار بار یہی صدائیں آتی رہیں:جو تیری رضا وہ میری رضا،جو تیرا غم وہ میرا غم ،جو تیری لگن وہ میری لگن،جو تیرا مشن وہ میرا مشن۔غرض، ہر لمحہ اسی کی یاد۔۔۔ اسی کا احساس۔۔۔اس کی تڑپ۔۔۔اور اسی کی چاہ ہو۔جگر مرادآبادی مرحوم کے بہ قول :
عشق ہی کاش میرے عشق کا حاصل ہوجائے
یہی رہبر، یہی جادہ، یہی منزل ہوجائے
اسبابِ محبت:
عام طور پرکسی بھی شخص سے محبت وتعلق کے چار اسباب ہوسکتے ہیں :حسن وجمال۔خوبی وکمال۔احسان ونوال۔قرابت و رشتہ داری۔ علامہ نوویؒ فرماتے ہیں: "محبت کی اصل یہ ہے کہ دل کسی ایسی چیز کی طرف مائل ہو،جو مرغوب وپسندیدہ ہو۔دل کا رحجان کبھی ایسی چیز کی طرف ہوتا ہے جس میں انسان لذت محسوس کرتا ہے اور اسے حسین سمجھتا ہے، جیسے حسن صورت اور کھانے کی لذت وغیرہ۔ اور دل کا میلان کبھی ایسی چیز کی طرف ہوتا ہے جس کی لذت باطنی وجوہ کی بنا پر اپنی عقل سے معلوم ہو جیسے صلحا، علما اور اہل فضل کی محبت۔اور کبھی دل کا میلان کسی کی طرف اس کے کسی احسان یا تکلیف دہ اور ناگوار چیز کے دور کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے”۔ (المنھاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج 2/14)۔
جب ہم گہرائی کے ساتھ سیرت طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اس بات کا یقین حاصل ہوجاتاہے کہ یہ تمام اسباب آپؐ کی مبارک ذات میں بدرجۂ اتم پائے جاتے ہیں۔
حسن وجمال: ایک آدمی کسی سے محبت اس کی ظاہری خوب صورتی کی وجہ سے کرتا ہے، جیسا کہ دنیا میں اسی سبب کو محبت کی کلید کہاجاتا ہے۔ زلیخا نے حضرت یوسف علیہ السلام سے حسن وجمال کی وجہ سے محبت کی تھی۔ نبی اکرمؐ تو دنیا کے حسین ترین انسان تھے۔ آپؐ کے حسن وجمال کی گواہی متعدد صحابۂ کرامؓ نے دی ہے۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ چاندنی رات میں رسول اللہ ﷺکو اس حال میں دیکھاکہ آپ پر سرخ رنگ کا دھاری دار حلہ(جوڑا)تھا،میں حضور ﷺ کو بھی دیکھتا اور چاند پر بھی نظر کرتا۔ پس حضور ﷺ میرے نزدیک چاند سے زیادہ حسین تھے ۔ (شمائل ترمذی) حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسولؐ سے زیادہ خوب صورت کوئی چیز نہیں دیکھی، گویا سورج آپؐ کے چہرے میں رواں (چہرہ نہایت ہی منور) تھا۔ (ایضاً )
خوبی وکمال: کسی سے محبت کا ایک سبب اس کے اندر موجود کمال بھی ہوتا ہے، جیسے علم وفضل اور صلاحیت وصالحیت وغیرہ۔ آپؐ میں سیکڑوں کمالات تھے،بے شمار محاسن آپ کی ذات گرامی سے نسبت پاکر عروج و بلندی تک پہنچے۔ آپؐ پر نبوت ختم ہوئی اور آپؐ خاتم النبیین قرار پائے۔ آپؐ نے فرمایا: ”مجھ پر نبوت ختم ہوئی اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا“۔ (المعجم الأوسط: 3274 ) اللہ تعالی نے آپؐ کو اولین وآخرین کے علم سے نوازا تھا۔ پھر مخلوقات میں جتنے بھی کمالات ہیں وہ سب آپؐ کے ہی واسطے سے ہیں ؛ کیوں کہ آپؐ ہی مبلّغ اور قاسم ہیں جیساکہ آپ کا فرمان ہے :میں تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ عطا کرنے والا ہے۔
احسان و نوال: ایک آدمی کسی کے احسان کی وجہ سے بھی اس سے محبت کرتا ہے۔یہ صفت بھی نبی اکرمؐ میں حد درجہ پائی جاتی تھی۔ حدیث میں ہےکہ آپ کے در سے کوئی خالی ہاتھ نہیں لوٹتا تھا ،آپ اپنی وسعت کے مطابق ہر سائل کا دامن مراد بھر کر واپس فرماتے تھے۔اس عمومی بخشش کے علاوہ خاص خاص مواقع پر آپ کا جود و کرم انتہا کو پہونچ جاتاتھا،جیساکہ بخاری شریف کی روایت ہے کہ : ”اللہ کے رسولؐ لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے۔ جب رمضان کا مہینہ آتا؛ تو آپؐ جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کریم کا دور کرتے تھے۔ (اور خاص طور پر رمضان میں ) آپؐ کی سخاوت ہوا سے بھی زیادہ تیز ہوتی تھی۔ “
قرابت ورشتہ داری:محبت کا ایک سبب رشتہ داری بھی ہے ۔اس کی وجہ سے بھی باہمی تعلقات مضبوط ومستحکم ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کےلیے ہم دردی و جاں نثاری کے جذبات ابھرتے ہیں۔رسول اللہﷺاس حیثیت سے بھی محبت کیے جانے کا اولین حق رکھتے ہیں ۔ ارشاد خداوندی ہے : ”ایمان والوں کے لیے یہ نبی ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ قریب تر ہیں اور ان کی بیویاں مومنین کی مائیں ہیں۔ “(الأحزاب: 6 )ایک روایت میں سرکار دوعالمﷺنے خود فرمایا :میں تمہارے لیے شفیق باپ کے درجہ میں ہوں۔(ابو داؤد)
یہاں توسرسے پہلےدل کا سودا شرط ہےیارو !
جب حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات میں محبت کے تمام اسباب جمع ہیں تو لازماً آپ سے محبت ہونی چاہیے؛مگر سوال یہ ہے کہ اظہار محبت کا طریقہ کیا ہو؟تو بہ قول فقیہ العصر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ :محبوب کے لحاظ سے محبت کا اظہار کیا جاتا ہے، انسان کو اپنے والدین سے بھی محبت ہوتی ہے اور اولاد سے بھی، استاذ اور شیخ سے بھی محبت ہوتی ہے اورشاگرد و مرید سے بھی، شوہر و بیوی بھی ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، اور دوستوں میں بھی باہم محبت کا تعلق ہوتا ہے؛ لیکن ہرجگہ اظہار محبت کا ایک ہی انداز نہیں ہوتا،اظہارِ محبت میں دو باتوں کو خاص طور پر ملحوظ رکھا جاتا ہے، محبوب کا مقام ومرتبہ اور محبوب کی پسند.(شمع فروزاں،حب رسول؛آداب و تقاضے)
جب ہم صحابہ کرامؓ اورتابعین عظام کی سیرت وسوانح کامطالعہ کرتےہیں تو ہم کوپتہ چلتا ہے کہ یہ نفوس قدسیہ،ان دونوں چیزوں کی رعایت کرتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا حق ادا کرتے تھے ؛بل کہ حب رسول میں اس قدر مستغرق رہتے تھے کہ آپﷺ کی خاطر مرنے کٹنے کےلیے تیار ہوجاتے تھے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ وفات رسول ﷺکی خبر سن کر بے تاب ہوگئے اور کہنے لگے "خبردار! جس کسی نے کہا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں، میں ایسے شخص کی گردن اڑا دوں گا۔۔۔! میرے آقا تو الله تعالی سے ملاقات کرنے گئے ہیں جیسے موسی علیہ السلام اپنے رب سے ملاقات کےلیےگئے تھے، وہ لوٹ آئیں گےاور بہت جلد لوٹ آئیں گے۔۔۔۔! بلال حبشیؓ نے حضور کی وفات کے بعد اذاں دینا چھوڑدی۔ایک صحابی رسول کو آپ کی وفات کی اطلاع ملی تو انہوں نے وہیں پرکھڑے کھڑے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا کی کہ خدایا میری بینائی ختم فرمادیجیے! اس لیے کہ اب وہ ذات ہمارے درمیان نہیں رہی؛ جس کے دیدار سے ہم اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرتے تھے ۔(الادب المفرد)
پڑوسی ملک کے معروف مفکرحضرت مولانا زاہد الراشدی لکھتے ہیں: حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محبت اور عقیدت تو جذبہ و جنون اور اطاعت و وفاداری دونوں سے عبارت تھی۔ اس لیے اس کا رنگ سب سے الگ تھا اور اسی وجہ سے زمانہ ہمیشہ ان کی کوئی مثال لانے سے قاصر رہا ہے۔ مگر اس عقیدت و محبت کے اظہار کا انداز جدا جدا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مجھے اس دنیا میں تین چیزیں پسند ہیں: جناب نبی اکرمؐ کے چہرہ انور کی زیارت کرتا رہوں، میرا مال نبی اکرمؐ پر خرچ ہوتا رہے اور میری بیٹی نبی اکرمؐ کے نکاح میں ہو۔
مگر حضرت عمرو بن العاصؓ کی محبت کا اندازہ اس سے مختلف ہے، وہ فرماتے ہیں کہ اگر مجھ سے کوئی دریافت کرے کہ حضرت محمد رسول اللہؐ کے چہرۂ انور اور حلیہ مبارک کی کیفیات بیان کروں تو نہیں کر سکوں گا، اس لیے کہ زندگی بھر آنحضرتؐ کے چہرۂ مبارک کو آنکھ بھر کر دیکھ ہی نہیں پایا۔ جب کافر تھا تو اس قدر نفرت تھی کہ نظر ڈالنے کو جی نہیں چاہتا تھا اور جب مسلمان ہوا تو آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ انور کا رعب اتنا تھا کہ آنکھ بھر کر دیکھنے کی ہمت ہی نہیں تھی۔ یہ اظہارِ محبت اور احترام و ادب کے اپنے اپنے انداز ہیں، وارفتگی کی ایک ایسی قدرِ مشترک ہے کہ جس نے سب کو محبت و عقیدت کے بے مثال رشتے میں پرو رکھا ہے۔(رسول اللہؐ کی محبت اور مسلمانوں کے جذبات)
طبقات ابن سعد میں عاصم بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو جب کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا ان کے آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہوئے دیکھا۔ یہی وہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا ہیں جو آثار رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی حد درجہ عشق کرتے تھے ۔ کنز العمال کی روایت کے مطابق جہاں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا فرماتے ابن عمرؓ بھی وہاں نماز ادا فرماتے ، اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی درخت کے نیچے فروکش ہوئے ہوتے تو ابن عمر رضی اللہ عنہ اس کی نگہداشت کرتے اور اس کی جڑوں میں پانی ڈالتے کہ وہ کہیں سوکھ نہ جائے ۔
طبقات ابن سعد میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ کوئی رات ایسی نہیں گزرتی جس میں اپنے محبوب کو نہ دیکھتا ہوں! یہ بیان کرکے روتے جاتے ۔بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کو آنکھیں محض اس لیے عزیز تھیں کہ ان کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار ہوتا تھا۔
اسی طرح شواہد النبوۃ میں ملا جامی علیہ الرحمہ نے یہ روایت بیان کی ہے کہ جب حضور علیہ الصلاۃ و السلام کی وفات کی خبر مؤذن رسول حضرت عبداللہ بن زید انصاری رضی اللہ عنہ نے سنی تو وہ اس قدر غمزدہ ہوئے کہ نابینا ہونے کی دعا مانگنے لگے کہ میرے حبیب کے بعد یہ دنیا میرے لیے قابل دیدنہ رہی اور خدا کی قدرت کہ آپ اسی وقت نابینا ہوگئے ، لوگوں نے کہا تم نے یہ دعاء کیوں مانگی؟ فرمایا: لذت نگاہ تو آنکھوں سے ہے ، مگر سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب میری آنکھیں کسی کے دیدار کا ذوق نہیں رکھتیں۔
معلوم ہواکہ عشق، زبانی دعویٰ کا نام نہیں بلکہ وہ ایک جذبہ ہے جو عاشق کو اپنے محبوب پر ہر شئے کو نثار کرنے پر ابھارتا ہے ۔ عشق رسول ایک ایسی چاشنی ہے جو بھی اسے چکھ لیتا ہے توپھرکفار کے روح فرسا مظالم‘ جلادانہ بے رحمی و سفاکی‘ دنیا بھر کی اذیتیں اس کے پائے استقامت کو متزلزل نہیں کرسکتیں۔ عشق رسول کا مزہ پوچھنا ہوتو حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے دل سے پوچھئے جنہوں نے عشق کی راہ میں کیسے کیسے صدمات سہے ، ریگستان عرب کی سخت تپتی ریت پر انہیں بار بار لٹایا جاتا اور ان کے اس سینہ پر جس میں محبت رسول کے ہزاروں چراغ جل رہے تھے کفار مکہ کی جانب سے وزنی پتھر رکھا جاتا اور ان پر کوڑے برسائے جاتے پھر بھی وہ محبتِ رسولؐ کے دامن کو نہیں چھوڑتے اور زبان حال سے یہ اعلان کرتے جاتے تھے ۔
میں مصطفی کے جامِ محبت کا مست ہوں
یہ وہ نشہ نہیں جسے ترشی اتار دے
خلاصۂ تحریر:
ذکر رسول اور جلسہائے سیرت کے ساتھ ہمیں اس بات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا آج ربیع الاول کی اتنی سی اہمیت رہ گئی کہ ملت کے کچھ افراد اسے جشن کے طور پر مناکر فارغ ہوجائیں؟کچھ دیر کے لیے جلسے جلوس کا انعقاد کرلیا جائے ؟کچھ نعتیہ مشاعروں اور مدحیہ مجلسوں کا اہتمام ہوجائے !اس کے بعد سال کے گیارہ مہینے سنتوں کا جنازہ نکلے ،فرامین رسول سے سرتابی ہو، تعلیمات نبوی کو پامال کیاجائے اور جانتے بوجھتے خلاف شرع امور انجام دیے جائیں اور ہماری پیشانیوں پر شکن تک نہ آئے؟۔۔
نہیں نہیں! ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ امت مسلمہ کو اس نادر موقع سے بہت کچھ فیض لینا ہے ،بہت کچھ نفع پہونچانا ہے ،امت کے لیے یہ موقع اس اہم ترین سبق کی یاد دہانی ہے جسے اس نے فراموش کردیا ہے اور اسی وجہ سے اقوام عالم کے درمیان نشان عبرت بنی ہوئی ہے ۔
ربیع الاول کا مہینہ پوری انسانیت کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا مہینہ ہے،یوں تو سارے مہینے ہمارے آقا علیہ السلام کے ہیں؛ مگر یہ مہینہ آپ علیہ السلام کی ولادت کے ساتھ مخصوص ہے؛ اس لیے امت کو چاہیے وہ اس نادر موقع سے بھرپور اٹھائے ،سیرت النبی ﷺکا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرے،نئی نسل کو اس جانب متوجہ کرے ،لوگوں میں ضروری امور سے متعلق شعور بیدار کرے اور سنت کے مطابق زندگی گزارنے کو ترجیح دے ۔محبت کی حقیقت کے حوالے سےمفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ کےان بصیرت افروز عارفانہ اشعار پر ہم اپنی بات ختم کرتے ہیں :
محبت کیا ہے، دل کا درد سے معمور ہوجانا
متاع جاں کسی کو سونپ کر مجبور ہوجانا
یہاں توسرسے پہلےدل کا سودا شرط ہےیارو
کوئی آساں نہیں ہے سرمد و منصور ہو جانا